پردیسی بابو

ضیاء حیدری

محفلین
پردیسی بابو

بچپن میں دیسی فلمیں دیکھ دیکھ کر ہمیں پردیسیوں کی زندگی پر رشک آنے لگا تھا! پردیسی بابو بننے کا شوق کسے نہیں ہوتا ہے، یہ تو جیسے ہمارے دیس کے نوجوانوں کا قومی کھیل ہے۔ حالانکہ پردیسی بابو بننے کے چکر میں دیس اور محبتیں تو یوں چھوٹ جاتی ہیں جیسے موبائل سگنل پہاڑوں میں گم ہو جائیں۔ اور ہماری فلم انڈسٹری کا تو کہنا ہی کیا، جہاں گوری پردیسی کی جھلک ملتے ہی اسے سر آنکھوں پر بٹھا لیتی ہے، جیسے پورے گاؤں میں پہلی بار کوئی سیٹلائٹ ڈش آئی ہو۔ پردیس کی گلیاں، محبتیں اور گوری کے ہاتھ کی روٹیاں بس کیا بتاؤن؟ پردیسی بابو کا سپنا ۔

ادھر دیس میں محبتیں بھی ایسی کمیاب ہو گئی تھیں جیسے جاڑے میں دیسی مرغی کا انڈہ۔ بھئی، یونیورسٹی کے زمانے میں محبتیں یوں ملتی تھیں جیسے شادی میں بریانی کی پلیٹ، اور اب؟ اب تو حالت یہ حالت ہوگئی تھی کہ محبتیں ہم سے ایسے بچا کر رکھی جاتی ہیں جیسے نانی اماں کا پرانا زیور۔

مگر پردیس بھی خسارے کا سودا کا نکلا؟
وہ تو پوچھو ہی مت! پردیس جا کر پتا چلتا ہے کہ وہاں "پردیسی بابو" بھی کوئی خاص چیز نہیں، بس ایک اور بابو ہی ہیں۔ لوگ یوں نظر انداز کرتے ہیں جیسے بندے نے پرانا فیشن کا سوٹ پہنا ہو۔ پر دل ہے کہ مانتا نہیں۔ پردیس میں جا کر بھی دیس کی محبتوں کا رونا روتا ہے۔ اب وہاں بیچارہ کیا کرے؟ یہ دل بھی عجیب ہے، یہاں رہو تو پردیس کی گوریاں یاد آئیں، اور وہاں جاؤ تو دیس کی مرغیاں، جنہیں دیکھنے کے لیے ٹھنڈے جاڑوں میں بھی کمر کس کے نکلنا پڑے۔

اب تو ہم کان پکڑ کر بس اتنا کہتے، "صاحب، پردیسی بابو بننے کا یہ مطلب تو نہیں کہ دیس کے احساسات کو ردی سمجھ کر فروخت کر دیا جائے۔ بس دل کو بھی سمجھا دیا کریں کہ ہر گوری پردیسی مہربان نہیں ہوتی، اور ہردیسی محبت دیسی مرغی جتنی کمیاب نہیں ہوتی ہے!
 
Top