پردیس میں بسنے والے والدین کا المیہ

ہجرتوں کے ہر سفر نے حشر یوں برپا کئے
قربتوں میں فاصلے در فاصلے پیدا کئے

ہرقدم پر اس جہاں میں جِن کی خاطر دکھ سہے
اُڑ گئے پنچھی وہی سب بِن کوئی پروا کئے

کب پرندے لوٹ آئیں پھر نشیمن کی طرف
ہم اکیلے رات بھر بیٹھے رہے در وا کئے

جب ستارے جھلملا کر چاند تنہا کر گئے
ہم نے بھی گلزار اپنے پھر سبھی صحرا کئے

عمر بھر وہ جبہ و دستار کے اپنے بھرم
بارہا یوں نسلِ نو کے ہاتھ سب رسوا کئے

الجھنوں سے کس نے پایا ہے یہاں رستہ انیس
ہم بہلتے ہی رہے یہ دل بہت سادہ کئے


(انیس فاروقی)​
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت عمدہ انیس صاحب۔ اور بہت شکریہ میری بات کا مان رکھنے کے لئے۔ جیتے رہیے۔ اللہ کرے حسنِ رقم اور زیادہ۔ :)
 
Top