فرخ منظور
لائبریرین
پرستیدم، شِکستم۔۔۔
پہلے مرے گیتوں میں
سرمئی نقابیں تھیں
چمپئی تبسُم تھے !
پہلے میرے نغموں پر
جُھومتی ہُوئی کلیاں
آنکھ کھول دیتی تھیں
انقلاب کی لَے پر
میری نظم بڑھتی تھی
جیسے ریل کے پہیے
پٹریوں کے لوہے پر
فن کے گیت گاتے ہوں
میری نظم کے پیچھے
زندگی کی دھڑکن تھی
ماسکو کے گنبد تھے
چین کی چٹانیں تھیں
پیبلو نرودا کا
بے پناہ نغمہ تھا
بجلیوں کی عظمت تھی
آندھیوں کی قُوت تھی
آج میرے ہونٹوں سے
راگ یُوں اُبھرتے ہیں
جیسے ناؤ میں مانجھی
ڈُوبتی ہوئی لَے میں
ماہیا سُناتے ہیں
میری نظم گھائل ہے
میرے گیت روتے ہیں
اپنا حال دیکھ کر
ہارڈی کے ناول کے
لوگ یاد آتے ہیں
پہلے دل کے ساگر پر
جاگتی ہُوئی لہریں
جُھومتی ہُوئی کرنیں
ڈول ڈول جاتی تھیں
زندگی کے جُھولے پر
ٹہنیوں کے سائے سے
نکہتیں اُترتی تھیں
اب شدید گرمی میں
تاڑ کے درختوں پر
اِک مُہیب سناٹا
سائیں سائیں کرتا ہے
مُدتوں کا پروردہ
ایک نقش تھا دل پر
جس کو چند لمحوں نے
داستاں بنا ڈالا
رات بھر کوئی دل میں
کروٹیں بدلتا تھا
اِک چراغ بُجھتا تھا
اِک چراغ جلتا تھا
جُون کے مہینے کی
بےپناہ تنہائی
چیخ چیخ اُٹھتی تھی
بےکسی کے عالم میں
دوست یاد آتے تھے
ساتھ چلنے والوں کی
شکل یُوں اُبھرتی تھی
جیسے جیل کے اندر
آہنی سلاخوں سے
اک اُداس قیدی پر
چاندنی اُترتی ہے
اور یہ سبھی چہرے
اک دُھویں کے بادل میں
ڈوب ڈوب جاتے تھے
صرف ایک چہرہ تھا
جو کبھی نہیں ڈُوبا
جو کبھی نہیں بِکھرا
اور جو تصوُر میں
آنسوؤں کی چلمن سے
اِس طرح اُبھرتا تھا
جیسے گھر سے پہلی بار
اِک شریف کُنبے کی
نازنیں نکلتی ہے
صُبح دُھوپ چڑھنے پر
آنکھ ایسے کھلتی تھی
جیسے نوک ِ ناخُن سے
کوئی زخم چھِل جائے
دُودھ کے پیالے میں
جیسے ریت مل جائے
بےبسی میں بڑھتے تھے
یُوں اُمید کے سائے
جیسے کوئی میلے میں
راستہ بھٹک جائے
گرم گرم آنکھوں میں
پھانس سے کھٹکتی تھی
ایریل کے کھمبوں پر
رات سر پٹکتی تھی
اور پِھر وہ دن آیا
جب یہ جاگتی آنکھیں
اُس کو دیکھ سکتی تھیں
اُس کو دیکھ لینے پر
دل کی ایسی حالت تھی
جَیسے کوئی پردیسی
دُور کے سفر کے بعد
ایک سرد چشمے پر
ہاتھ پیر دھوتا ہے
لیکن اے غمِ آخر
صرف ایک لمحے کو
زندگی نہیں کہتے
اے تلاشِ لا حاصل
مُسکرا کے ملنے کو
دوستی نہیں کہتے
اے مِرے تصوُر کی
بےحجاب شہزادی
مجھ کو تیرے کانوں میں
ایک بات کہنی تھی
بات جس کے کہنے کو
میرے ہونٹ جلتے تھے
بات جس کے کہنے کو
میرا دِل سُلگتا تھا
اب فقط یہ کہنا ہے
جو چراغ سینے کی
آندھیوں میں جلتے تھے
وُہ ذرا سی کوشش سے
جھلملا بھی سکتے ہیں
حوصلے کے آدمی
اپنے دل کے زخموں پر
مُسکرا بھی سکتے ہیں
بُت بنانے والے ہاتھ
فیصلے کے لمحوں میں
بُت گِرا بھی سکتے ہیں
مصطفیٰ زیدی
شہر ِ آذَر
پہلے مرے گیتوں میں
سرمئی نقابیں تھیں
چمپئی تبسُم تھے !
پہلے میرے نغموں پر
جُھومتی ہُوئی کلیاں
آنکھ کھول دیتی تھیں
انقلاب کی لَے پر
میری نظم بڑھتی تھی
جیسے ریل کے پہیے
پٹریوں کے لوہے پر
فن کے گیت گاتے ہوں
میری نظم کے پیچھے
زندگی کی دھڑکن تھی
ماسکو کے گنبد تھے
چین کی چٹانیں تھیں
پیبلو نرودا کا
بے پناہ نغمہ تھا
بجلیوں کی عظمت تھی
آندھیوں کی قُوت تھی
آج میرے ہونٹوں سے
راگ یُوں اُبھرتے ہیں
جیسے ناؤ میں مانجھی
ڈُوبتی ہوئی لَے میں
ماہیا سُناتے ہیں
میری نظم گھائل ہے
میرے گیت روتے ہیں
اپنا حال دیکھ کر
ہارڈی کے ناول کے
لوگ یاد آتے ہیں
پہلے دل کے ساگر پر
جاگتی ہُوئی لہریں
جُھومتی ہُوئی کرنیں
ڈول ڈول جاتی تھیں
زندگی کے جُھولے پر
ٹہنیوں کے سائے سے
نکہتیں اُترتی تھیں
اب شدید گرمی میں
تاڑ کے درختوں پر
اِک مُہیب سناٹا
سائیں سائیں کرتا ہے
مُدتوں کا پروردہ
ایک نقش تھا دل پر
جس کو چند لمحوں نے
داستاں بنا ڈالا
رات بھر کوئی دل میں
کروٹیں بدلتا تھا
اِک چراغ بُجھتا تھا
اِک چراغ جلتا تھا
جُون کے مہینے کی
بےپناہ تنہائی
چیخ چیخ اُٹھتی تھی
بےکسی کے عالم میں
دوست یاد آتے تھے
ساتھ چلنے والوں کی
شکل یُوں اُبھرتی تھی
جیسے جیل کے اندر
آہنی سلاخوں سے
اک اُداس قیدی پر
چاندنی اُترتی ہے
اور یہ سبھی چہرے
اک دُھویں کے بادل میں
ڈوب ڈوب جاتے تھے
صرف ایک چہرہ تھا
جو کبھی نہیں ڈُوبا
جو کبھی نہیں بِکھرا
اور جو تصوُر میں
آنسوؤں کی چلمن سے
اِس طرح اُبھرتا تھا
جیسے گھر سے پہلی بار
اِک شریف کُنبے کی
نازنیں نکلتی ہے
صُبح دُھوپ چڑھنے پر
آنکھ ایسے کھلتی تھی
جیسے نوک ِ ناخُن سے
کوئی زخم چھِل جائے
دُودھ کے پیالے میں
جیسے ریت مل جائے
بےبسی میں بڑھتے تھے
یُوں اُمید کے سائے
جیسے کوئی میلے میں
راستہ بھٹک جائے
گرم گرم آنکھوں میں
پھانس سے کھٹکتی تھی
ایریل کے کھمبوں پر
رات سر پٹکتی تھی
اور پِھر وہ دن آیا
جب یہ جاگتی آنکھیں
اُس کو دیکھ سکتی تھیں
اُس کو دیکھ لینے پر
دل کی ایسی حالت تھی
جَیسے کوئی پردیسی
دُور کے سفر کے بعد
ایک سرد چشمے پر
ہاتھ پیر دھوتا ہے
لیکن اے غمِ آخر
صرف ایک لمحے کو
زندگی نہیں کہتے
اے تلاشِ لا حاصل
مُسکرا کے ملنے کو
دوستی نہیں کہتے
اے مِرے تصوُر کی
بےحجاب شہزادی
مجھ کو تیرے کانوں میں
ایک بات کہنی تھی
بات جس کے کہنے کو
میرے ہونٹ جلتے تھے
بات جس کے کہنے کو
میرا دِل سُلگتا تھا
اب فقط یہ کہنا ہے
جو چراغ سینے کی
آندھیوں میں جلتے تھے
وُہ ذرا سی کوشش سے
جھلملا بھی سکتے ہیں
حوصلے کے آدمی
اپنے دل کے زخموں پر
مُسکرا بھی سکتے ہیں
بُت بنانے والے ہاتھ
فیصلے کے لمحوں میں
بُت گِرا بھی سکتے ہیں
مصطفیٰ زیدی
شہر ِ آذَر