پرندے اب بھی پر تولے ہوئے ہیں ۔۔۔۔۔۔دشینت کمار

پرندے اب بھی پر تولے ہوئے ہیں
ہوا میں سنسنی گھولے ہوئے ہیں

تمھیں کمزور پڑتے جا رہے ہو
تمہارے خواب تو شعلے ہوئے ہیں

غضب ہے سچ کو سچ کہتے نہیں وہ
قرآن اور اپنشد کھولے ہوئے ہیں

مزاروں سے دوائیں مانگتے ہو
عقیدے کس قدر پولے ہوئے ہیں

کبھی کشتی، کبھی بطخ، کبھی جل
سیاست کے کئی چولے ہوئے ہیں

ہمارا قد سمٹ کر مٹ گیا ہے
ہمارے پیرہن جھولے ہوئے ہیں

چڑھاتا پھر رہا ہوں جو چڑھاوے
تمہارے نام پر بولے ہوئے ہیں

"سائے میں دھوپ" سے انتخاب
 

تلمیذ

لائبریرین
مزاروں سے دوائیں مانگتے ہو
عقیدے کس قدر پولے ہوئے ہیں

'تدوین' کے ذریعےذرا اسے دعائیں کر لیں۔
 
Top