طارق شاہ
محفلین
غزل
پروفیسراقبال عظیم
اک خطا ہم از رہِ سادہ دِلی کرتے رہے
ہر تبسّم پر قیاسِ دوستی کرتے رہے
ایسے لوگوں سےبھی ہم مِلتے رہے دل کھول کر
جو وفا کے نام پر سوداگری کرتے رہے
خود اندھیروں میں بسر کرتے رہے ہم زندگی
دوسروں کے گھرمیں لیکن روشنی کرتے رہے
سجدہ ریزی پائے ساقی پر کبھی ہم نے نہ کی
اپنے اشکوں سے علاجِ تشنگی کرتے رہے
اپنے ہاتھوں آرزوؤں کا گلا گھونٹا کئے
زندہ رہنے کے لئے ہم خودکُشی کرتے رہے
ہر طرف جلتے رہے،بُجھتے رہے جُھوٹے چراغ
اور ہم، سامانِ جشنِ تِیرَگی کرتے رہے
حالِ دل کہہ دیں کسی سے، بارہا سوچا مگر
اِس اِرادے کو ہمیشہ مُلتوی کرتے رہے
خود کودیتے بھی رہے ترکِ تعلّق کا فریب!
اور درپردہ ، کسی کو یاد بھی کرتے رہے
اس طرح اقبال! گزری ہے ہماری زندگی
زہرِغم پیتے رہے، اور شاعری کرتے رہے
پروفیسراقبال عظیم