پروٹوکول

یونس

محفلین
پروٹوکول

اس شام میں نیلاگنبد کی طرف سے مال روڈ پر آ رہاتھا۔خلاف توقع مال روڈپرخاصا کم دکھائی دے رہا تھا۔ حالانکہ یہ کوئی شام ساڑھے سات بجے کا وقت تھا اور لاہور میں یہ وقت ’رش آور ‘ کے زمرے میں آتا ہے۔ذرا اور قریب پہنچا تو ٹریفک کے شورمیں ٹریفک پولیس کی گاڑی کے سائرن اور لاؤڈاسپیکر پر ایک انسانی آواز کی ملی جلی گونج سنائی دی۔اس آواز پر کان دھرے میں اب بینک اسکوائرمیں آگیا تھا۔اورلاؤڈ اسپیکر سے نکلنے والی آواز اب کچھ کچھ سمجھ میں آنے لگی تھی۔
’بلیک کرولا! پلیز سروس روڈ پر تشریف لے جائیں‘
’وائٹ مہران! سروس روڈ پہ ہو جائیں‘
’موٹرسائیکل! سروس روڈپہ چلیں‘
’اوئے سائیکل ! سروس روڈ پہ رہو‘
ٹریفک اہلکار حفظ مراتب کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے لاؤڈ اسپیکر پر پیغام نشر کر رہا تھا۔مال روڈبزبان خود بھی کسی شاہی سواری کی آمد کی خبر دے رہی تھی ۔۔۔ با ادب‘ با ملاحظہ ‘ ہوشیار۔۔۔ !
کوئی ایسی ہستی آرہی تھی۔جس کا وقت نہایت قیمتی تھا‘
جس کے لئے راستے ہمیشہ صاف رکھے جاتے ہیں‘
ٹریفک سگنلز جس کے لئے بے معنی ہوتے ہیں‘ تمام ملکی قوانین جس کی مرضی کے تابع ہوتے ہیں‘
جس کے لئے عوام۔۔۔ عوام الناس ۔۔۔ العوام کالانعام۔۔۔ ہوتے ہیں۔ بلکہ ان سے بھی حقیر تر‘
معاًجدید اسلحہ سے لیس کمانڈوز کی جیپوں کے جلو میں سیاہ رنگ اور سیاہ شیشوں والی ۔ ۔ ۔ (کہ شائد یہی رنگ ان لوگوں کے اندر کی درست عکاسی کر سکتا ہے ) ۔۔۔ کچھ گاڑیاں نہایت سرعت سے گزر گئیں۔ مجھے اس لمحے اپنا وجودبہت حقیر محسوس ہوا۔ مجھے یوں لگا کہ اشرف المخلوقات تو یہی لوگ ہیں۔ہم سب تومحض چیونٹیاں ہیں‘ حقیر اور بے معنی۔ اور ہم میں سے ہی ایک چیونٹی ابھی چِلاچِلا کر کہہ رہی تھی کہ اے چیونٹیو! جلدی جلدی اپنے بلوں میں گھس جاؤ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تم اس شہنشاہ کے لشکر کے پاؤں تلے روند دی جاؤ اور لشکر والوں کو اس کا پتہ بھی نہ چلے۔۔۔
یہ الفاظ اُس ایک چیونٹی کے تھے جوآج سے ہزاروں برس پہلے ایک شہنشاہ کے لشکر کی آمد دیکھ کر چِلائی تھی۔ اپنے دور کا وہ شہنشاہ چیونٹی کی بات سن کر مسکرا دیا تھاکہ وہ جن و انس سب پر حکمران تھا۔ اسے اس کے رب نے اس کی تمام رعایا کی زبانوں اور بولیوں کا فہم عطا کر رکھا تھا۔ وہ شہنشاہ ہی نہیں‘ اپنے عہد کا نبی تھا۔ اپنے رب کی طرف سے ایستادہ‘ لوگوں کو ایک معبودکی پرستش کی راہ دکھانے والا۔ اسے اپنی رعایا کے دکھ درد کا احساس تھااور وہ عدل کا پیامبر تھا۔ ۔ ۔ مگر اس وقت میری آنکھوں کے سامنے مال روڈ کا جو منظرہے۔ اس کا وی آئی پی یا وی وی آئی پی تواس شہنشاہ کی خاکِ پا کے برابر بھی نہیں ہے۔پھر صرف اس کی ہی جان‘ مال‘ عزت‘ آبرو اور وقت اس قدر قیمتی کیوں ہے ؟! سڑک پر موجود سینکڑوں جانیں اس کی جان کے سامنے ہیچ کیوں ہیں؟!
اس کی شاہی سواری گزرنے کے دوران ۔۔۔
ایمبولینس میں موجود کوئی مریض ہسپتال جلدنہ پہنچ سکنے کی وجہ سے اسی سروس روڈ پر زندگی ہارجائے۔
انٹرویو کے لئے جانے والابوڑھے ماں باپ اورجوان بہنوں کا واحد سہارابے روزگارنوجوان وقت پر نہ پہنچ سکے اور انٹرویو سے رہ جانے کی بنا پراس کے مستقبل کے خواب بکھر کر رہ جائیں۔
جاں بلب ماں کیلئے دوائی لے کر جانے والا یتیم بیٹاتاخیر سے دوائی لے کر پہنچے اوراس سے پہلے اس کی ماں بھری دنیا میں اسے اکیلاچھوڑ کر جاچکی ہو۔
۔ ۔ ۔ تو کیا فرق پڑتا ہے ؟!
بس اس وی آئی پی کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہ آئے۔ اس کے آرام و آسائش میں خلل نہ پڑے۔ اس کی اربوں کے بجٹ والی رہائش گاہ کی چمک دمک برقرار رہے۔اوراس کی خواب گا ہ پرسکون رہے۔
اس تضاد‘ ایسی پستی‘ ایسی بلندی کو دیکھ کرمیری آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔۔۔ آنسوؤں کی جھلمل کے اس پارمجھے وہ منظر دکھائی دینے لگتا ہے۔۔۔ جہاں سلطنت فارس کے ایک حصے کا حکمران‘ اور شکست خوردہ سپہ سالار ’ہرمزان‘ ایک قیدی کی صورت میں لے جایا جا رہا ہے۔ وہ چاہتا ہے اسے اجازت دی جائے کہ وہ اس فاتح کو ایک نظر دیکھ لے جس نے فارس جیسی عظیم الشان سلطنت سے ٹکر لی اور اسے پاش پاش کردیا۔اس کی نگاہیں بجا طور پر کسی عظیم الشان محل میں زرق برق لباس میں ملبوس‘ مرقع و آراستہ تخت پرجلوہ افروز کسی شہنشاہ کی متلاشی ہیں۔ مگروہاں اسے مسجد نبوی کے صحن میں پیوند لگا لباس پہنے‘ فرش خاک پر پتھر کا تکیہ بنائے لیٹا ایک وجود دکھا کر بتا یاجاتا ہے کہ یہ ہیں ہمارے امیر المومنین۔۔۔ !
ہرمزان دنگ رہ جاتا ہے۔!
۔۔۔ یہ ہے عرب و عجم کا فاتح ۔۔۔ ؟!
جس کا کوئی دربار نہیں‘ دربان ‘ پہرے دار‘ خدام کچھ بھی تو نہیں!
عام لوگوں کے درمیان‘ عام سی جگہ پر‘ بلا خوف و خطر سو رہا ہے ۔۔۔ !
ہاں یہ تھے امیر المومنین سیدنا عمر بن الخطاب ! ۔ ۔۔ بائیس لاکھ مربع میل کے بلاشرکت غیرے حکمران! جنہوں نے کبھی حکمرانی کی آرزو بھی نہیں کی تھی۔ اُن کے ساتھیوں نے یہ بار گراں جان بوجھ کر اُن کے کاندھوں پر ڈال دیا تھا۔ اور اب وہ اس سے بطریق احسن عہدہ برآہونے کی کوشش میں تھے ۔اس امانت کی خاطرانہوں نے اپنا آرام و سکون تج دیا تھا۔ وہ دن کو امور سلطنت سنبھالتے‘ رات کے پہلے حصے میں رعایا کی خبر گیری کرتے تو دوسرے حصے میں اپنے پرور دگار کے سامنے گریاں و لرزاں رہتے۔ کہ انہیں رعایا کے حقوق کا احساس تھا۔ اور روز محشر اس بارے میں پوچھے جانے کی فکر تھی۔
کاش ! ۔۔۔ ہمیں بھی اس پائے کا ۔ ۔۔ بلکہ اُن کی خاکِ پا جیسا ہی ۔۔۔ کوئی حکمران نصیب ہو جائے ۔۔۔ یہاں مجھے اس بات کا بھی پورا احساس ہے کہ ہمارے اپنے اعمال کیااس قابل ہیں کہ ہم یہ آرزو کر سکیں؟! ہم اپنے پروردگار سے یہ التجا کرنے کے اہل بھی ہیں یا نہیں؟! لیکن جب اس ذات رحیم و کریم کی رحمتوں اور شانِ کریمی کی طرف نظر جاتی ہے تو ۔۔۔ یہ جانتے ہوئے کہ ہم جس قدر بھی غفلت کا شکار ہوں‘ جتنے بھی بے عمل ہو جائیں‘ اس کے فضل و کرم کے باعث ہمارے دل ایمان کی اک چنگاری سے یکسر خالی نہیں ہوتے۔۔۔ پورے اعتماد کے ساتھ میرے ہاتھ دعا کے لئے اُٹھ جاتے ہیں ‘کہ وہ ہمیشہ اُٹھے ہوئے ہاتھوں کی لاج رکھ لیتا ہے۔کبھی سائل کو خالی ہاتھ نہیں جانے دیتا۔اس کے در سے کبھی کوئی نامراد نہیں لوٹا۔۔۔
آئیے ہم سب اپنے پالنہار سے دعا کریں ۔۔۔
یا اللہ پاک ! دل میں پڑی اس چنگاری کو شعلہ جوالہ کی صورت دے دے۔ہمیں ایمان و عمل کی دولت عطا فرما۔اور ہم پر ہم ہی میں سے ایسا حکمران لا جو اِن اوصاف سے متصف ہو۔ جس کے دل میں فی الواقع رعایا کا درد ہو‘ جو رعایا کے درمیان رہنے والا‘ اور ان کے دکھ درد کو سمجھنے والا ہو ۔
 

نور وجدان

لائبریرین
یا اللہ پاک ! دل میں پڑی اس چنگاری کو شعلہ جوالہ کی صورت دے دے۔ہمیں ایمان و عمل کی دولت عطا فرما۔اور ہم پر ہم ہی میں سے ایسا حکمران لا جو اِن اوصاف سے متصف ہو۔ جس کے دل میں فی الواقع رعایا کا درد ہو‘ جو رعایا کے درمیان رہنے والا‘ اور ان کے دکھ درد کو سمجھنے والا ہو ۔

لاجواب انداز ۔۔۔خوب تحریر۔۔۔امید ہے آپ ہمیں اور تحاریر کے تحائف سے نوازتے رہیں گے ۔۔
 
Top