جان
محفلین
اول یہ ہم کئی بار کہہ چکے کہ محض مذہب 'قوم' کا انگریڈینٹ نہیں ہے، قوم جغرافیہ، زبان، معاشرت اور دیگر لوازم سے وجود میں آتی ہے اور مذہب اس میں سے صرف ایک عنصر ہے لہذا پہلی بات کہ اس ملک کی بنیاد محض مذہب کے نعرے پہ رکھ دینے سے حقیقی معنوں میں قوم نہیں بن جاتی، تاہم اس کے باوجود پلورلزم جمہوریت کی ایک بہترین خوبصورتی ہے، مسئلہ ایک نکتے پہ متفق ہونے کا نہیں ہے بلکہ ایک نکتے پہ متفق نہ ہونا ہی تو جمہوریت کی خوبصورتی ہے جو جمہوری اسٹیٹس کو آگے لے جاتی ہے کیونکہ محض ایک ہی سوچ تاحیات ان پہ حاوی نہیں رہتی۔ اصل مسئلہ پاکستان میں آزادی پہ قدغن ہے جو میں کم از کم خان صاحب سے امید نہیں لگا رہا تھا لیکن خان صاحب بھی اندر سے ڈکٹیٹر ہی نکلے۔ آزادی کا مطلب ہوتا ہے ہر خیال کو باہر آنے دو چاہے وہ سچا ہو یا جھوٹا، مذہبی ہے یا غیر مذہبی، چاہے آپ اس سے متفق ہوں، غیر متفق ہوں لیکن افسوس کے ساتھ نہ ہی ابھی تک قوم حقیقی معنوں میں آزاد ہوئی اور نہ ہی حکمران انہیں آزادی کا مفہوم سمجھانے اور آزادی دینے کو تیار ہیں (حکمرانوں کے آباؤ اجداد نے ملک اس کام کے لیے تھوڑی بنایا تھا)، آزادی سلب کرنے کے نت نئے طریقے ایجاد کیے جاتے ہیں کبھی ایکسٹریم رائیٹ آئیڈیاز سے اور کبھی ایکسٹریم لیفٹ آئیڈیاز سے۔ لہذا مسئلہ محض 'قوم' میں نہیں ہے جمہوریت کی بنیادی شرط 'آزادی' ہے جو اسے ڈکٹیٹرشپ سے جدا کرتی ہے۔ پاکستان میں ہر شخص میں ایک ڈکٹیٹر زندہ ہے جو اپنی مرضی کے آئیڈیاز کو تو امپلیمنٹ ہوتے دیکھنا چاہتا ہے لیکن دوسرے کے آئیڈیاز اسے قبول نہیں اور اصل مسئلہ یہی ہے اور تبھی یہاں آمریت کو بھی قبول کر لیا جاتا ہے کیونکہ وہ بھی کسی نی کسی کی سوچ کی عکاسی کر رہی ہوتی ہے اور اگر نہ بھی کر رہی ہو تو کوئی مسئلہ نہیں کم از کم دکھنی ویسی ہی چاہیے۔ اس کی وجوہات پہ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں ہلکا سا اشارہ پھر کر دیتا ہوں کہ 'ہیروازم' پہ مبنی جھوٹی ڈکٹیٹرانہ تاریخ پڑھانے کے یہی نتائج ہوتے ہیں جب تک ہم اپنی تاریخ کے بتوں (ہیروز) پہ تنقید کرنا نہیں سیکھیں گے یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا۔ تاریخ ہی انسان کی استاد ہوتی ہے اور اگر کسی کے غلط کارناموں کو صحیح بنا کے پیش کیا جاتا رہا ہے گا وہی غلطیاں مسلسل ہوتی رہیں گے اور ہم پینڈولم کی طرح دو انتہاؤں کے درمیان جھولتے رہیں گے اور آگے قطعی نہ بڑھ سکیں گے۔حقیقی جمہوریت وہاں پنپتی ہے جہاں پہلے سے کوئی قوم موجود ہو جو کم از کم چند نکات پر اتفاق رائے رکھتی ہو۔
دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کتنے پاکستانی ہیں جو ایک دوسرے کو ہم وطن سمجھتے ہیں؟ لبرل سیکولرز کو مدرسے والے قبول نہیں۔ مدرسے والوں کو لبرلز سے چڑ ہے۔ فوجی طبقہ سویلین پاکستانیوں کو اپنی جوتی کی نوک پر رکھتا ہے۔ اشرافیہ کے نزدیک کروڑوں غریب پاکستانی کیڑے مکوڑے ہیں۔
پہلے آپ ایک قوم تو بن جائیں۔ جمہوریت لانا تو بہت دور کی باتیں ہیں
آخری تدوین: