پروینؔ شاکرکی نظموں میں تانیثی رنگ

سیما علی

لائبریرین

پروینؔ شاکرکی نظموں میں تانیثی رنگ​

’ اس بات میں کوئی شک کی گنجائش نہیں ہے کہ ’’خالص نظم‘‘ کی ابتدا نظیر اکبرآبادی نے کی اور ’’جدید نظم‘‘ کاآغاز حالیؔ اور آزادؔ نے کیا۔ساتویں دہائی کے بعد آٹھویں دہائی کی نظم میں مابعد جدیدیت کے آثار واضح طور پر نظرآتے ہیں ۔اس دور کی نظم میں محض ہیئتی تجربوں کانام نہیں بلکہ ان احساسات سے عبارت ہے،جن میں آج کے دور کاانسان الجھا اور پھنسا ہواہے۔دنیا جہاں ترقی کے بامِ عروج پر ہے۔وہاں انسان کے مسائل اور زندگی کی پیچیدگیوں میں اضافہ ہواہے۔ان حالات و مسائل نے شعراکے ان افکار کو جنم دیا جنھیں مابعدجدیدیت کانام دیاگیا۔اس دور کاشاعر فطری طورپر آزاد ہے اور کھلی آنکھوں سے باہر کی دنیاکانظارہ کررہاہے۔اپنی بات کو ہر انداز میں کہنے کاحوصلہ رکھتاہے،یہی وجہ ہے کہ آج کاشاعر اپنے تجربات واحساسات کاظہار ’’پابند نظم،نظم معریٰ‘‘اور ’’آزادنظم‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’نثری نظم‘‘ میں کررہاہے۔

۱۹۸۰؁ء کے بعد شعراء نے دنیا کو در پیش مسائل سے دوچار ہوکر نظمیں لکھیں ،جن میں بے روزگاری،دنگے فسادات،انتہاپسندی،بے وطنی وہجرت کاکرب جیسے موضوع عام ہیں ۔پچھلی تین چار دہائیوں سے اردوشاعری کے میدان میں خواتین شاعرات نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے، جنھوں نے تانیثی شاعری کے حوالے سے اپنی ایک الگ شناخت بنائی،اور اردو نظم کے باب میں موضوعات کے اعتبارسے کچھ اضافے کیے ہیں ،جوہمیں عام طور پر مردشعرا کے یہاں کم نظر آتے ہیں ۔ موضوعات کے ساتھ ساتھ لب ولہجے میں بھی ان خواتین شاعرات کے یہاں تبدیلی کا احساس پایا جاتا ہے۔اگرچہ اس ضمن میں بہت سے نام گنوائے جاسکتے ہیں ،لیکن ہماری غرض صرف پروینؔ شاکر سے ہے۔

پروینؔ شاکرنے خواتین کی نئی نسل کی نمائندہ بن کران کی رہبری کی۔انھوں نے موضوعات کی رنگارنگی،اسلوب وتجربات کی ندرت اور نسائی جذبوں کو اپنے مخصوص لب ولہجے میں شاعرانہ پیکر عطاکرکے تانیثی شاعری میں ایک امتیاز حاصل کیا۔پروینؔ شاکر کو یہ فوقیت حاصل ہے کہ انھوں نے اپنے عورت ہونے پر فخرکیا،بلکہ عورت سے وابستہ محسوسات کابرملا اظہاربھی کیا۔اس سلسلے میں یہ تحریر ملاحظہ فرمائیں :

’’پروین شاکر کاپہلامجموعہ’’خوشبو‘‘ نوعمرلڑکیوں کے جذبات کی عکاسی کرتاہے،لیکن اس کے بعد کے سارے مجموعوں میں نسائی فکر اور نفسیاتی تجربات میں پختگی آتی گئی۔عورت کو درپیش مسائل ان کی نظموں کے موضوع بنتے گئے۔پدری نظام جبر کے تحت متوسط طبقے کی پڑھی لکھی اور گھریلو عورت کے ساتھ ہورہے استحصال کوانھوں نے اپنی شاعری کاموضوع بنایا۔‘‘

(ماہنامہ۔’’اردو دنیا‘‘ دہلی۔ جولائی۔۲۰۱۵؁ء۔ صفحہ۔ ۲۳ )

پرونؔ شاکر کی وہ نظمیں جو تانیثی جذبات ومحسوسات کی حامل ہیں ،ان میں ’’گیلے بالوں سے چھنا سورن،ورکنگ وومن(working woman)،بے پناہی،سجدہ،سالگرہ، واٹرلو‘‘ اور ’’لیڈی آف دی ہائوس‘‘ وغیرہ کو مثال کے طورپرپیش کیا جا سکتا ہے۔اِن نظموں کے علاوہ بھی بہت سی نظمیں ہیں ،جن میں نسائی شعور اورلب ولہجہ موجود ہے۔’گیلے بالوں سے چھنا سورج‘‘ نظم ملاحظہ ہو ؎

شوخ کرن نے
گیلے ریشم بالوں کو جس لمحہ چھوا
بے ساختہ ہنس دی
پلکوں تک آتے آتے
سوورج کی ہنسی بھی
گوری کی مسکان کی صورت
سات رنگ میں بھیک چکی تھی !

پروینؔ شاکر کے یہاں عورت کی خوشیاں ،غم، دکھ سکھ،جذبے،احساس،علامتوں ،تشبیہوں اور استعاروں کی شکل میں اظہارپاگئے ہیں ہو۔ہوااور نظروں کے اسی لمس کے سہارے انھوں نے اپنے اندر کی لرکی کو منکشف کردینے کی خدا سے جو دعامانگی تھی،وہ ان کی پہلی کتاب’خوشبو‘ میں پوری ہوتی نظرآتی ہے۔ایسا معلو ہوتاہے کہ یہاں ان کے اندر کی معصوم سی شبنمیں رخسارون اور حیران آنکھوں والی لڑکی پوری منکشف ہوچکی ہے۔نوعمر لڑکیوں کی نفسیات اور جذباتی کیفیات کی اتنی سچی اور اتنی واضح عکاسی اتنے سلجھے ہوئے اندازمیں کسی اور کے یہاں مشکل سے ہی ملے گی۔محبت کایہ المیہ بدن وروح میں ارتعاش اور تھرتھراہٹ کی کیفیت پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتاہے۔’خوشبو‘ میں شامل نظمیں اِنہی خیالات کی آئینہ دار ہیں ۔’’احتیاط،اعتراف،کشف،گماں ،پیار،بس اتنا یاد ہے،پہلے پہل‘‘اور ’’کانچ کی سرخ چوڑی‘‘ وغیرہ نمونے کے طور پر پیش کی جاسکتی ہے۔چند نظمیں مثال کے طور پر ملاحظہ فرمائیں ؎
احتیاط
سوتے میں بھی
چہرے کو آنچل سے چھپپائے رہتی ہوں
ڈرلگتاہے
پلکوں کی ہلکی سی لرزش
ہونٹوں کی موہوم سی جنبش

گالوں پررہ رہ کے اتر نے والے دھن

نظم ’احتیاط’میں کچی عمر کی لڑکیوں کی سادگی اور معصومیت کا ذکر ہے کہ اس عمر میں لڑکیاں صرف خواب دیکھتی ہیں ،انھیں ان کی تعبیر سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔وہ کسی کو چاہنے اور چاہے جانے کو زندگی کی معراج سمجھ لیتی ہیں ۔وہ جس کو چاہتی ہیں ،سوتے جاگتے میں صرف اسی کے خیال اور تصور میں کھوئی کھوئی رہتی ہیں ،وہ کسی کو پالینے کی خوشی دنیا کی ہر چیز سے بڑھ کر سمجھتی ہیں ۔وہ اپنے ساتھی کے خیالوں میں گم ہیں اور کبھی کبھاریہ عالم ہوتاہے کہ بے وجہ ہونٹ مسکرانے لگتے ہیں ۔اسی طرح کے احساسات ان کی دوسری نظموں ’’پہلے پہل‘‘اور ’’کشف‘‘ وغیرہ میں دیکھنے کو ملتے ہیں ۔

پروینؔ شاکر کی نظموں میں ہرطبقے کی عورت اپنے ذہنی وجذباتی رویوں سمیت جلوہ گر ہے۔ چاہے مزدور پیشہ عورت ہویااعلیٰ سوسائٹی سے تعلق رکھنے والی عورت،اَن پڑھگھریلو عورت ہویااعلیٰ عہدے پر فائز عورت،سب عورتوں کے اپنے اپنے مسائل اور المیے ہیں ۔مرداساس معاشرے میں عورت کو کمزور سمجھ کر اس پرہونتے ہوئے ظلم اورناانصافی جیسے موضوعات پرتفصیلی اظہارخیال ملتا ہے۔ عورت ہمیشہ اپنے ارمانوں کاگلہ گھونٹتی چلی آرہی ہے۔عورت کے جذبات واحساسات، پسندناپسند کی کوئی قیمت نہیں ،وہ دوسروں کے اشاروں پر ناچتی ہے۔

پروینؔ شاکرکی نظموں میں ایسی عورتوں کی بے زبانی اور مظلومیت کااظہارملتاہے۔نظم ’’صرف ایک لڑکی‘‘میں تمثیلی اندازمیں شاعرہ عورت کو سماج کے رسم ورواج میں جکڑی ہوی عمرعقید کی ملزم بتاتی ہیں ۔’’پرزم‘‘میں شاعرہ نے تمثیلی اندازمیں سورج اور پانی کے قطرے کی علامتوں کے ذریعے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ،جس طرح پانی کے قطرے پر سورج پڑتی ہیں ،تو اس میں دھنک کے رنگ پھوٹتے ہیں ،بالکل اسی طرح عورت کی زندگی میں ایک مرد کی اہمیت ہے۔مردجب تک اپنی محبت بھری نظروں سے دیکھتاہے،تب تک ایک عورت کی خوشی اورا میدبرقرار ہوتی ہے،اور جونہی بے توجہی برتتاہے،تووہ عورت سادہ وبے رنگ پانی پانی کے ایک قطرے کی مانند رہ جاتی ہے۔یعنی ویران اور خوشیوں اور امیدوں سے خالی، ایک نظم ملاحظہ فرمائیں ؎

پرزم(PRISM)
میرابھی اک سورج ہے
جو میرا تن چھوکر مجھ کو
قوس قزح کے پھول اگائے
ذرا بھی اس نے زاویہ بدلا
اور میں ہوگئی
پانی کا اک سادہ قطرہ
بے منظر، بے رنگ !

پروینؔ شاکر شاعری خالص مشرقی عورت کی شاعری ہے،اس کی مرثیہ ہے،اور جوایک مجسم حسن ووفاہے۔مشرقی عورت اپناماضی نہیں بھولتی،جب کہ مرد ماضی کو بھول کراپنی ایک نئی دنیابسالیتا ہے۔پروینؔ کی نظموں میں یہ موضوع بہت واضح طورپر ابھرکرسامنے آہے۔مرد کی بے وفائی اور سنگدلی کاشکوہ کبھی نظم’’آنے والی کل کادیکھ‘‘تو کبھی’’چاندنی رات‘‘اور کبھی’’ردعمل‘‘ میں صاف طور پر دیکھنے کو ملتاہے۔ایک نظم ملاحظہ فرمائیں ؎

چاندنی رات
ہوا ! کچھ آج کی شب کابھی احوال سنا
کیاوہ اپنی چھت پر آج اکیلا تھا؟
یاکوئی میرے جیسی ساتھی تھی،اور اس نے

چاندکو دیکھ کے اس کا چہرہ دیکھاتھا؟

اس کے برعکس ’’صدبرگ‘‘ میں غم جاناں اور غم دوراں کی تصویریں نظرآتی ہیں ۔اس کے موضوعات زیادہ وسیع ہیں ۔’صڈ برگ‘ کی نظموں میں ایک لڑکی سے زیادہ ایک عورت کی سنجیدہ،مضبوط اور پُراعتماد لیجہ سنائی دیتاہے۔یہاں پروین’ عورت کو سمجھاتی ہیں کہ وہ اپنے آپ کو پہچانے اور اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے اٹھ کھڑی ہوجائے۔وہ یہ جان لے کہ اس کی اپنی ذات اور جسم وجان کے بھی کچھ تقاضے ہیں ،جو مرد معاشرہ نے ضبط کرلیے ہیں ۔عورت ہر میدان میں اپنی کارکردگی کامظاہرہ پیش کررہی ہے،اور وقت بھی بدل چکاہے،لیکن عورت کااستحصال بدستور ہورہاہے۔اسے آج کے جدید معاشرے میں جسمانی عیش اور لطف وندوزی کا کاذریعہ بنایاجارہاہے۔یہاں کے سب قانون وقائدے مردوں کے اختراع کردہ ہیں ،اورعورت کی معصومیت اور مجبوری ان پر عمل آوری کاباعث بنی ہوئی ہے۔آج کی عورت سے متعلق معاملات ومسائل اجاگر ہونے والی یہ نظمیں قابل ذکر ہیں ۔’’پوست ڈنر آئٹم،کتوں کاسپاس نامہ،ایک معقول نکاح،کنیادان،ورکن وومن‘‘اور ’’اسٹینوگرافرِِوغیرہ نظمیں شامل ہیں ۔
عورتوں کو گھرسے نکلنے کے بعد کن مسائل سے دوچارہوناپڑتاہے،انھیں مردلوگ کس طرح ترچھی اور چبھتی ہوئی نگاہوں سے دیکھتے ہیں ۔اس صورت حال کاسامنانہ صرف دفتروں میں کام کرنے والی خواتین کوہے،بلکہ فیکٹریوں ،کارخانوں اور دیگراداروں میں کام کرنے والی مزدور پیشہ عورتوں کوبھی اس طرح کے مسائل کاسامنا کرناپڑتاہے۔نظم ’’کنیادان‘‘ اور’’ایک معقول نکاح‘‘ میں متوسط طبقے کی لڑکیوں کی بے بسی ومجبوری کو منظرعام پر لایاگیاہے کہ کس طرح یہ معصوم لڑکیاں حالات کے بے رحم تھپیڑوں کے آگے اپنے آپ کو لاچار اور بے سہارا پاکر اپناسر جھکاتی ہوئی نظرآتی ہیں ۔بھولی بھالی اور کم سن لڑکیوں کوایسے مردوں سے شادی کرناپڑتی ہے،جوعمر،شکل وصورت غرض کسی بھی لحاظ سے ان کے قابل نہیں ہوتے ہیں ۔اسی طرح پروینؔ شاکر کے یہاں بہت سی نظمیں ہمیں دیکھنے کو ملتی ہیں ۔
پروینؔ شاکرکی شاعری کا تیسرا مجموعہ’’خودکلامی‘‘ہے۔جس میں تقدیر کی عطاکردہ تنہائیوں اورآسودگیوں کادبے اوردھیمے لفظوں میں گِلہ کرتی ہیں ۔خودکلامی میں ایک حساس عورت کی وضاحت ہے۔اس کتاب میں کچھ نظمیں ممتاکے خوبصورت اور پاکیزہ جذبوں سے آراستہ ہیں ۔ایک عورت تخلیق کے مراحل سے گزرکر جو طمانیت وآسودگی محسوس کرتی ہے،وہ ان نظموں میں محسوس کی جاسکتی ہے۔ایک نظم’’ایک خوبصورت ڈرائیور‘‘ میں ایک سہانے خیال کی طرف متوجہ کرتی ہیں ،جس کا مقصد یہ ظاہر کرنا ہے کہ من پسندساتھی کی قربت زندگی کوکتنا دلکش اور حسین بنادیتاہے۔
نظم ’’مِسفٹ‘‘(MISFIT)میں پروینؔشاکر اس صورت حال میں پریشاں ہیں کہ وہ اپنی دوٹوک باتوں سے لوگوں کو خوش نہیں رکھ سکتیں ۔لوگ ان کے تیکھے لہجے کی بناپر ان سے ناراض رہتے ہیں ۔نظم کے دوسرے حصے میں ملازمت پیشہ عورت ہونے کے ناطے وقت کی کمی کی وجہ سے وہ اپنے عزیز ترین رشتہ داروں سے دورہوگئی ہے،اور اس کا احساس ہے اسے،مگرایک ملازمت پیشہ عورت گھر اور دفتر دونوں جگہوں کی ذمہ داریوں کو نبھاتے نبھاتے تھک جاتی ہے۔یہاں بھی وہ ماضی میں کبھی کبھار گم ہوکر پرانی باتیں اور یادیں تازہ کرتی ہے،اور محبوب کو یاددلانے کی کوشش کرتی ہے کہ وہ انھیں نہیں بھولی اور ہروقت یادوں سے رشتہ جوڑنے کی کوشش کرتی ہے’ساتھ ‘میں اسی ماضی کے ساتھ یاد کرکے کہتی ہے ؎
کتنی دیر تک
املتاس کے پیڑکے نیچے
بیٹھ کے ہم نے باتیں کیں
کچھ یادنہیں
بس اتنااندازہ ہے
چاندہماری پشت سے ہوکر
آنکھوں تک آپہنچاتھا !
پروینؔ شاکر نے اپنے چوتھے شعری مجموعے ’’انکار‘‘میں بیشتر آزاداور نثری نظمیں لکھیں ہیں ۔ اس مجموعے میں شامل نظم’’سوشل ورکرخاتون کا مسئلہ‘‘ جوکہ ایک معصوم بچے کاکردار ہے،جسے سوشل ورکر خاتون پانی کی تالش میں سرگرداں دیکھ کر اپنے اندر احساس ندامت محسوس کرتی ہے۔ایک نظم’’ایک مشکل سوال‘‘ میں شاعرہ نے ٹات کے پردے کے پیچھے سے ایک غریب گھر کی بارہ تیرہ سالہ نوخیز کلی کو دیکھ کر رنجیدہ ہوجاتی ہیں ،اور اس کا اظہاریوں کرتی ہیں کہ انسان کادل دکھ درد سے بھرجاتاہے۔نظم ملاحظہ فرمائیں ؎
وہ چہرہ
بہارکے پھول کی طرح تازہ تھا
اور آنکھیں
پہلی محبت کی طرح شفاف!
لیکن اس کے ہاتھ میں
ترکاری کاٹتے رہنے کی لکیریں تھیں
اور ان لکیروں میں
برتن مانجھنے والی راکھ جمی تھی

اس کے ہاتھ

اس کے چہرے سے بیس سال بڑے تھے

عورت کے ساتھ صنفی امتیاز برتنے کے خلاف ایک اور نظم’’بشیرے کی گھروالی‘‘ جس میں ایک پسماندہ سے سماج کی ایک غریب لڑکی کی ساری بدحالی اور حستہ حال زندگی کانقشہ نگاہوں میں گھوم جاتاہے۔پروینؔ شاکر اس بات کا گہراشعور رکھتی

ہیں کہ لڑکے اورلڑکی میں فرق ہمارا معاشرہ کرتاہے کہ لڑکی کو اپنی کم عمر ی میں ہی اپنی قد سے بڑی جھاڑو اس کے ہاتھوں میں تھما دیے جاتے ہیں ، یہی نہیں بلکہ گائے کو گھاس دینا،گوبرنکالنااس کا مقصد بن جاتاہے،اور اس کا بھائی کرسی پر مکھن کھاتارہتاہے۔

پروینؔ شاکرنے نظم’’بشیرے کی گھر والی‘‘ میں عورت کی حقیقت بیان کرتی ہیں ۔اس کے وجودکو ایک مشین سمجھاجاتاہے،جو جذبات وخواہشات سے بالکل خالی ہے،جسے ہرمرد اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرناچاہتاہے۔اسی طرح اور بہت سی نظمیں اس مجموعے میں شامل ہیں ،جیسے ’’ٹماٹر کیچپ ‘‘اور’’ایک دفنائی ہوئی آواز‘‘وغیرہ،جن میں اگرچہ نسائی حسیت یاتانیثی شاعری کے حوالے سے ہی ہے،مگروہ خواتین کے مسائل سے قطع نظر ایک باشعور فردکی طرح اپنے ملک کے سیاسی وسماجی مسائل سے بھی آگاہ تھیں ۔
پروینؔ شاکر کی شاعری کاآخری سفران کی شاعری کا پانچواں مجموعہ’’کف آئینہ‘‘ ہے۔اس کے بعد ان کی شاعری کاسفر اختتام پذیر ہوجاتاہے۔اس میں احساسات کچھ تھکے تھکے اور بجھے بجھے سے محسوس کیے جاتے ہیں ۔یہاں ’’خوشبو‘‘کی لڑکی ایک عورت بن کراس کی تڑپتی اور سسکتی آرزوئوں ،ناآسودہ ارمان،زندگی کاسوناپن واضح طورپر ابھرکر سامنے آتاہے،جس میں ہونے یا نہ ہونے کا احساس ختم ہوجاتاہے۔نظم ’’ایک کالی دوپہرکاسونا پن‘‘ اس طرح بیان کرتی ہے۔
کسی آواز نے ماتھا مرا چوما
نہ کوئی دلربا لہجہ
مجھے باہوں میں لے پایا
اس مجموعہ کی اکثر نظموں میں پروین شاکر یاتوکبھی خدا سے گلہ کرتی ہیں یا تو تقدیر کو کوستی ہیں ۔ کبھی تو یہ سوچ کر اپنے آپ کو تسلی دے کر بہلاتی ہیں کہ خدانے ہی یہ قسمت تیرے لیے بنائی ہے،اور اب تو کچھ بھی نہ کرسکتی سوائے دعاکے۔
الغرض پروین شاکر ایک ہر دلعزیز شاعرہ اور اردو شاعری میں ایک درخشاں ستارے کی مانند ہیں ۔جدید اردو شاعری کی روایت ان کے نام کے بغیر ادھوری ہیں ۔
 

سید عمران

محفلین
عنوان حنائی رنگ بھی ہوتا تو ذہن سیدھا حنائی ہاتھوں کی طرف جاتا۔۔۔
اور حنائی ہاتھ کس کے ہوتے ہیں سب کو معلوم ہے۔۔۔
لہٰذا نسائی علوم کا راز خود بخود طشت از بام ہوجاتا!!!
 
Top