حسان خان
لائبریرین
۲۰۰۸ میں آزادی کا اعلان کرنے والی یورپ کی جدید ترین ریاست کوسوو اس لحاظ سے منفرد یورپی ملک ہے کہ اس ملک کی پچانوے فیصد آبادی مسلمان ہے۔ اس طرح یہ ریاست مسلمانوں کی شرحِ آبادی کے لحاظ سے یورپ کی سب سے بڑی ریاست بن جاتی ہے۔ اس ریاست کے اکثریتی لوگ نسلاً البانوی ہیں۔
کوسوو میں اسلام کا اغاز ۱۳۸۹ء عیسوی میں اُس وقت ہوا تھا جب عثمانیوں نے بلقان پر حکومت کرنا شروع کی تھی۔ ویسے تو بلقان کی ہر قوم میں سے لوگوں نے اسلام قبول کیا تھا، لیکن نامعلوم وجوہات کی بنا پر بوسنیائی اور البانوی وہ دو مقامی اقوام تھیں جنہوں نے عثمانیوں کے بلقان پر قبضے کے بعد جوق در جوق اسلام قبول کرنا شروع کر دیا، اور سولہویں صدی تک آتے آتے بوسنائیوں اور البانویوں کی اکثریت اسلام قبول کر چکی تھی۔ اُس وقت سے لے کر اب تک مذہبی لحاظ سے مذہبِ اسلام کا ہی کوسوو پر غلبہ رہا ہے۔ کوسوو میں چونکہ اسلام براہِ راست ترکی کے راستے آیا تھا، اس لیے یہاں ترک طرز کے سنی حنفی اسلام کی ہی جھلک نظر آتی ہے۔
بلقان پر عثمانی اقتدار کے پانچ سو سالوں سے زیادہ دور میں البانویوں اور خلافتِ عثمانیہ کے درمیان تعلقات بڑے صمیمی رہے تھے۔ خلافتِ عثمانیہ کے کئی سارے وزرائے اعظم اور اعلیٰ عہدے داران البانوی گزرے ہیں۔ ادبی نگاہ سے دیکھیں تو البانوی قوم نے خلافتِ عثمانیہ کو یحییٰ تاشلی جالی، مسیحی، ناظم فراکولا اور شمعی پریزرنی جیسے بیسیوں فارسی اور عثمانی ترکی کے شعرائے کرام عطا کیے ہیں۔ حتیٰ کہ جدید ترکی کے قومی ترانے کے خالق اور ترکی کے قومی شاعر محمد عاکف ارسوی بھی کوسوو سے تعلق رکھنے والے البانوی تھے۔ یہ نکتہ بھی دلچسپ ہے کہ البانیہ کے قومی شاعر نعیم فراشری البانوی زبان کے ساتھ ساتھ فارسی زبان کے بھی شاعر تھے اور اُن کے کلام کا پہلا مجموعہ فارسی زبان میں ہی شائع ہوا تھا۔
بر سبیلِ تذکرہ اس کا ذکر بھی دلچسپی سے خالی نہ ہو کہ جدید مصر کے بانی محمد علی پاشا بھی البانوی تھے۔
خیر، کوسوو کے شہر پریزرن میں واقع سِنان پاشا مسجد کوسوو کی اہم ترین مذہبی و ثقافتی عمارات میں سے ایک سمجھی جاتی ہے۔ یہ ۱۶۱۵ عیسوی میں تعمیر ہوئی تھی۔ سربیا سے آزادی کی جنگ کے دوران دیگر کئی مساجد کی طرح اس مسجد کو بھی سرب فوج کے ہاتھوں نقصان پہنچا تھا، لیکن اب اس کی دوبارہ مرمت ہو چکی ہے۔ (بوسنیائیوں کی طرح البانویوں کے 'ازلی دشمن' بھی سرب ہیں۔)
آئیے اس مسجد کی چند تصاویر دیکھتے ہیں۔
قلعۂ پریزرن سے مسجد کا منظر
سڑک سے مسجد کا منظر
اندر سے گنبد اور محراب کی تصاویر
مسجد کی اندرونی دیوار پر ایک اور مسجد کا نقش
محراب کے اوپر کی کھڑکی
محراب
مسجد کا دروازہ
مسجد کے اطراف میں قلعۂ پریزرن
کوسوو میں اسلام کا اغاز ۱۳۸۹ء عیسوی میں اُس وقت ہوا تھا جب عثمانیوں نے بلقان پر حکومت کرنا شروع کی تھی۔ ویسے تو بلقان کی ہر قوم میں سے لوگوں نے اسلام قبول کیا تھا، لیکن نامعلوم وجوہات کی بنا پر بوسنیائی اور البانوی وہ دو مقامی اقوام تھیں جنہوں نے عثمانیوں کے بلقان پر قبضے کے بعد جوق در جوق اسلام قبول کرنا شروع کر دیا، اور سولہویں صدی تک آتے آتے بوسنائیوں اور البانویوں کی اکثریت اسلام قبول کر چکی تھی۔ اُس وقت سے لے کر اب تک مذہبی لحاظ سے مذہبِ اسلام کا ہی کوسوو پر غلبہ رہا ہے۔ کوسوو میں چونکہ اسلام براہِ راست ترکی کے راستے آیا تھا، اس لیے یہاں ترک طرز کے سنی حنفی اسلام کی ہی جھلک نظر آتی ہے۔
بلقان پر عثمانی اقتدار کے پانچ سو سالوں سے زیادہ دور میں البانویوں اور خلافتِ عثمانیہ کے درمیان تعلقات بڑے صمیمی رہے تھے۔ خلافتِ عثمانیہ کے کئی سارے وزرائے اعظم اور اعلیٰ عہدے داران البانوی گزرے ہیں۔ ادبی نگاہ سے دیکھیں تو البانوی قوم نے خلافتِ عثمانیہ کو یحییٰ تاشلی جالی، مسیحی، ناظم فراکولا اور شمعی پریزرنی جیسے بیسیوں فارسی اور عثمانی ترکی کے شعرائے کرام عطا کیے ہیں۔ حتیٰ کہ جدید ترکی کے قومی ترانے کے خالق اور ترکی کے قومی شاعر محمد عاکف ارسوی بھی کوسوو سے تعلق رکھنے والے البانوی تھے۔ یہ نکتہ بھی دلچسپ ہے کہ البانیہ کے قومی شاعر نعیم فراشری البانوی زبان کے ساتھ ساتھ فارسی زبان کے بھی شاعر تھے اور اُن کے کلام کا پہلا مجموعہ فارسی زبان میں ہی شائع ہوا تھا۔
بر سبیلِ تذکرہ اس کا ذکر بھی دلچسپی سے خالی نہ ہو کہ جدید مصر کے بانی محمد علی پاشا بھی البانوی تھے۔
خیر، کوسوو کے شہر پریزرن میں واقع سِنان پاشا مسجد کوسوو کی اہم ترین مذہبی و ثقافتی عمارات میں سے ایک سمجھی جاتی ہے۔ یہ ۱۶۱۵ عیسوی میں تعمیر ہوئی تھی۔ سربیا سے آزادی کی جنگ کے دوران دیگر کئی مساجد کی طرح اس مسجد کو بھی سرب فوج کے ہاتھوں نقصان پہنچا تھا، لیکن اب اس کی دوبارہ مرمت ہو چکی ہے۔ (بوسنیائیوں کی طرح البانویوں کے 'ازلی دشمن' بھی سرب ہیں۔)
آئیے اس مسجد کی چند تصاویر دیکھتے ہیں۔
قلعۂ پریزرن سے مسجد کا منظر
سڑک سے مسجد کا منظر
اندر سے گنبد اور محراب کی تصاویر
مسجد کی اندرونی دیوار پر ایک اور مسجد کا نقش
محراب کے اوپر کی کھڑکی
محراب
مسجد کا دروازہ
مسجد کے اطراف میں قلعۂ پریزرن