فاروق احمد بھٹی
محفلین
کبھی کبھی
انسانی خیالات عجیب لا یعنی قسم کے بہاؤ کا شکار ہو جاتے ہیں شائد اسی کو پریشان خیالی کہتے ہیں ۔ مختلف قسم کے خیالات بلکہ بے بہا قسم کے خیالات ایک کے بعد ایک ایسے دماغ سے گزرتے ہیں جیسے کسی نہایت ہی گنجان سڑک سے گزرتی ہوئی مختلف اقسام کی تیز رفتار گاڑیاں۔ ایسا نہ جانے کیوں ہوتا ہے پر جب بھی ہوتا ہے بہت اذیت ناک ہوتا ہے ،اور انسان اپنا سر پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے۔ جھٹکنے کے باوجود خیالات جانے کا نام نہیں لیتے۔
اچانک کسی شناسا کی آواز گونجتی ہے"کس سوچ میں گم ہو جناب" اور انسان دم بخود اس کی طرف دیکھتا ہے اسے اپنا سوال پھر دہرانا پڑتا ہے کہ جیسے سنا ہی نہ گیا ہو۔ اور جواب ہوتا ہے کچھ نہیں بس ایسے ہی ۔پھر وہی خیالات۔
بہت سے سوال، سوالوں کے خود ساختہ جواب، خود کلامی، عجیب سی مسکراہٹ ، غصہ ، ماضی ، حال، مستقبل،حالاتِ حاضرہ، اور نہ جانے کیا کیا دماغ سے آکر گزرتا جاتا ہے۔
میرے ہونے کا مقصد کیا ہے؟ اللہ نے اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔ تو عبادت کرتا کیوں نہیں؟ جواب ندارد۔زندگی میں کیا کرنا ہے تجھے؟ بہت کچھ(پتہ نہیں کیا)۔ قیامت کے دن اللہ کو کیا منہ دکھائے گا؟ جواب ندارد۔ پاکستان میچ کیوں ہار گیا؟ تجھ سے مطلب۔پھر کوئی نہایت ہی اجنبی سا بھولا بسرا گانا اور وہ بھی پرائی زبان میں
The whole world sitting on ticking bomb
پھر غالب انکل کا کوئی مصرع اور ساتھ ہی شاعر مشرق کا کوئی شعر
شرم تم کو مگر نہیں آتی،
نہ ہو طبیعت ہی جن کی قابل
وہ تربیت سے نہیں سنورتے،
اور نہ جانے کیا کیا انسان کے دماغ سے آ کر گزرتا جاتا ہے۔انسان اگر اس وقت بستر پر ہو تو سوچتا ہے کہ اسے اب سو جانا چاہئے لیکن نیند کہیں کوسوں دور خیالات کو ساتھ لئے کسی ندی کنارے بیٹھی پائی جاتی ہے ۔ اور انسان چارو ناچار خیالات کی روانی میں بہا جاتا ہے۔
یہ سارا کچھ تحت الشعور میں برپا ہوتا ہے یا پھر لا شعور میں ، لیکن اس کا سارا اثر شعور پر ہو رہا ہوتا ہے ۔ اور شعور بجا طور پر اسے ہینڈل نہیں کر پا رہا ہوتا اور کسی پی۔تھری کمپیوٹر (انٹرنیٹ کونیکشن ایک ایم۔ بی) کی طرح زیادہ بوجھ پڑنے پر بار بار ہینگ ہورہا ہوتا ہے ۔ اور ری سٹارٹ کا مطالبہ کرتا نظر آتا ہے۔
اس ساری لا شعوری جنگ کو شعوری طور پر لکھنا بھی بجا طور ممکن نہیں کہ شعور خیالات کے اس اژدہام کا جو کہ لا شعور میں برپا ہوتا ہے احاطہ نہیں کر پاتا۔
ایسا بھی ہوتا ہے لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کبھی کبھی
نوٹ:
اس تحریر کو کسی بھی قسم کی ادبی تحریر کے ضمن میں نہ لیا جائے۔ کہ یہ فقط میرے پریشان خیالات ہیں اور کچھ بھی نہیں۔
انسانی خیالات عجیب لا یعنی قسم کے بہاؤ کا شکار ہو جاتے ہیں شائد اسی کو پریشان خیالی کہتے ہیں ۔ مختلف قسم کے خیالات بلکہ بے بہا قسم کے خیالات ایک کے بعد ایک ایسے دماغ سے گزرتے ہیں جیسے کسی نہایت ہی گنجان سڑک سے گزرتی ہوئی مختلف اقسام کی تیز رفتار گاڑیاں۔ ایسا نہ جانے کیوں ہوتا ہے پر جب بھی ہوتا ہے بہت اذیت ناک ہوتا ہے ،اور انسان اپنا سر پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے۔ جھٹکنے کے باوجود خیالات جانے کا نام نہیں لیتے۔
اچانک کسی شناسا کی آواز گونجتی ہے"کس سوچ میں گم ہو جناب" اور انسان دم بخود اس کی طرف دیکھتا ہے اسے اپنا سوال پھر دہرانا پڑتا ہے کہ جیسے سنا ہی نہ گیا ہو۔ اور جواب ہوتا ہے کچھ نہیں بس ایسے ہی ۔پھر وہی خیالات۔
بہت سے سوال، سوالوں کے خود ساختہ جواب، خود کلامی، عجیب سی مسکراہٹ ، غصہ ، ماضی ، حال، مستقبل،حالاتِ حاضرہ، اور نہ جانے کیا کیا دماغ سے آکر گزرتا جاتا ہے۔
میرے ہونے کا مقصد کیا ہے؟ اللہ نے اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔ تو عبادت کرتا کیوں نہیں؟ جواب ندارد۔زندگی میں کیا کرنا ہے تجھے؟ بہت کچھ(پتہ نہیں کیا)۔ قیامت کے دن اللہ کو کیا منہ دکھائے گا؟ جواب ندارد۔ پاکستان میچ کیوں ہار گیا؟ تجھ سے مطلب۔پھر کوئی نہایت ہی اجنبی سا بھولا بسرا گانا اور وہ بھی پرائی زبان میں
The whole world sitting on ticking bomb
پھر غالب انکل کا کوئی مصرع اور ساتھ ہی شاعر مشرق کا کوئی شعر
شرم تم کو مگر نہیں آتی،
نہ ہو طبیعت ہی جن کی قابل
وہ تربیت سے نہیں سنورتے،
اور نہ جانے کیا کیا انسان کے دماغ سے آ کر گزرتا جاتا ہے۔انسان اگر اس وقت بستر پر ہو تو سوچتا ہے کہ اسے اب سو جانا چاہئے لیکن نیند کہیں کوسوں دور خیالات کو ساتھ لئے کسی ندی کنارے بیٹھی پائی جاتی ہے ۔ اور انسان چارو ناچار خیالات کی روانی میں بہا جاتا ہے۔
یہ سارا کچھ تحت الشعور میں برپا ہوتا ہے یا پھر لا شعور میں ، لیکن اس کا سارا اثر شعور پر ہو رہا ہوتا ہے ۔ اور شعور بجا طور پر اسے ہینڈل نہیں کر پا رہا ہوتا اور کسی پی۔تھری کمپیوٹر (انٹرنیٹ کونیکشن ایک ایم۔ بی) کی طرح زیادہ بوجھ پڑنے پر بار بار ہینگ ہورہا ہوتا ہے ۔ اور ری سٹارٹ کا مطالبہ کرتا نظر آتا ہے۔
اس ساری لا شعوری جنگ کو شعوری طور پر لکھنا بھی بجا طور ممکن نہیں کہ شعور خیالات کے اس اژدہام کا جو کہ لا شعور میں برپا ہوتا ہے احاطہ نہیں کر پاتا۔
ایسا بھی ہوتا ہے لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کبھی کبھی
نوٹ:
اس تحریر کو کسی بھی قسم کی ادبی تحریر کے ضمن میں نہ لیا جائے۔ کہ یہ فقط میرے پریشان خیالات ہیں اور کچھ بھی نہیں۔