طارق شاہ
محفلین
غزل
دہن کو زخم، زباں کو لہوُ لہوُ کرنا
عزیزو! سہل نہیں اُس کی گُفتگوُ کرنا
کُھلے درِیچوں کو تکنا، تو ہاؤ ہُو کرنا
یہی تماشا سرِ شام کوُ بہ کوُ کرنا
جو کام مجھ سے نہیں ہو سکا،وہ تُو کرنا
جہاں میں اپنا سفر مِثلِ رنگ و بُو کرنا
جہاں میں عام ہیں نکتہ شناسیاں اُن کی
تم ایک لفظ میں تشریحِ آرزُو کرنا
دلِ تباہ کی اِیذا پرستیاں معلُوم
جو دسترس میں نہ ہو اُس کی جستجوُ کرنا
میں اُس کی ذات سے اِنکار کرنے والا کون
نہ ہو یقیں، تو مجھے اُس کے رُو برُو کرنا
جو حرف لکھنا اسے لَوحِ آب پر لکھنا
جو نقش کرنا سرِ سطحِ آب جُو کرنا
پریم کُمار نظرؔ
1936 ہوشیارپُور-پنجاب، انڈیا