پریڈ لین کے نمازی کی دعا

قمراحمد

محفلین
پریڈ لین کے نمازی کی دعا

090306160959_hanif_byline_106x60.jpg

محمد حنیف
بی بی اردو ڈاٹ کام، کراچی


خدایا میں مسجد میں آیا تو تیری عبادت کی نیت سے ہوں۔ میری جبیں بندہ نیاز میں بے شمار سجدے تڑپ رہے ہیں لیکن سجدے میں گرنے سے پہلے میں کچھ گزارشات کرنا چاہتا ہوں۔

اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ جب میری پیشانی زمین پر ہوگی اور دل تیری ثنا کر رہا ہوگا تو میری پشت میں گولی نہیں مار دی جائے گی؟ ظاہر ہے تو یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ میں ایک بزدل عبادت گزار ہوں اور تجھے میرے سجدوں کی ضرورت نہیں ہے۔ میرا ایمان یقیناً کمزور ہے لیکن دل اس سے بھی کمزور۔

میں تو رکوع میں بھی جاتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ میرے ساتھ رکوع میں جانے والا شخص ہوسکتا ہے دشمنِ اسلام ہو اور پیچھے سے آکر گولی چلانے والوں کا جائز نشانہ۔ لیکن مجھے شک ہے کہ حملہ آوروں کا ایمان تو شاید مجھ سے زیادہ مضبوط لیکن مجھے ان کے نشانے کی پختگی پر کوئی یقین نہیں مجھے یہ سوچ کر بھی وحشت ہوتی ہے کہ اگر مجھے جس کا ڈر ہے وہ ہوگیا تو کل ٹیلی ویژن پر میری جانے والی چھوٹی سی جان کو قیمتی کہا جائے گا، ہوسکتا ہے کوئی جوش میں آکر مجھے شہید کہہ دے۔

اب سچی بات یہ ہے کہ اگرچہ بچپن سے مجھے’شہادت ہے مطلوب مقصود و مومن‘ کا درس دیا گیا ہے لیکن تو دلوں کا حال جانتا ہے اور تجھے پتہ ہے کہ یہ جذبہ اس دل گناہ گار کو چھو کر بھی نہیں گزرا۔ تو جانتا ہے کہ عین اس وقت میرے دل میں نماز ختم کرنے کے بعد ایک گرم روٹی کھانے کی خواہش ہے، یہ تجسس ہے کہ عاصم بٹ آج کل سٹوڈیو میں بند ہوکر کینوس پر کیا گند گھول رہا ہے، اس فکر میں ہوں کہ اگلے ہفتے کوئی ہمارا سٹیج ڈرامہ دیکھنے آئے گا یا نہیں۔ اسکے علاوہ بھی دل میں ایسی ایسی حسرتیں ہیں کہ تیرے حضور انکا ذکر بھی گناہ ہے۔

ایک اور بات جو مجھے زمین پر گھٹنے ٹیک کر تیرے حضور سربسجود ہونے سے روک رہی ہے اور جس کو سوچ کر میری گردن کے بال کھڑے ہو جاتے ہیں وہ یہ ہے کہ میں جیسے ہی اللہ اکبر کہ کر سجدے میں جاؤں گا، میرے پیچھے پھٹنے والا میرے سے بلند آواز میں نعرہ تکبیر لگا کر پھٹے گا۔پھر مجھے شاید کبھی پتہ نہ چل سکے کہ خدا میرے ساتھ تھا یا مجھے مارنے والے کے ساتھ۔ اور اگر کہیں یہ ثابت ہو گیا کہ تو دونوں کے ساتھ ہے تو کیا کروں گا؟

میں نے سنا ہے کہ مسجد میں بھی شیطان نمازیوں کو بہکاتا ہے لیکن مسجد کے راستے میں آتے ہوئے مجھے ایک آئیڈیا آیا تھا اگر جان کی امان پاؤں تو عرض کروں؟ میرے گھر میں ایک ٹیلی ویژن ہے اگر اجازت ہو تو اس کے سامنے عبادت کر لیا کروں؟ میں ٹی وی کا ریموٹ کنٹرول دبا کر تیری ثنا بھی سن سکتا ہوں، تیرے گھر کا حج بھی براہ راست دیکھ سکتا ہوں، شیطان کو کنکریاں مارنے کا روح پرور منظر بھی دیکھ سکتا ہوں۔

اس ٹی وی پر مارنے والے، مارنے والوں کو مارنے کا دعوی کرنے والے، مارنے والوں کی ثنا پڑھنے والے، مرنے والوں کا ماتم کرنے والے سب تو موجود ہیں۔ بیچ بیچ میں کبھی کبھی چمکدار بالوں اور سستی فون کالوں کے اشتہار سننا پڑیں گے۔ لیکن تجارت کی تو تو نے خود اجازت دی ہے بلکہ میں نے کتابوں میں پڑھا ہے کہ پیغمبری پیشہ ہے۔ تو اگر تیری اجازت ہو تو جب تک حالات بہتر نہیں ہوتے بندگی کے فرائض جیو اور قرآن ٹی وی دیکھ کر ادا کر لیا کروں؟ ہو سکتا ہے تجھے یہ گزارشات ایک بزدل، اور’طاؤس و رباب آخر‘ ٹائپ مسلمان کا بہانہ لگیں اور ظاہر ہے میں تیرے فیصلے سے اختلاف کی جرات نہیں کر سکتا لیکن ایک آخری گزارش سن لے۔ تیرے گھر کے باہر کچھ بوڑھی عورتیں بیٹھی ٹوپیاں اور مسواکیں بیچ کر روٹی کمانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ کیا وہ بھی شہید کہلائیں گی؟ ان کی حالت دیکھ کے لگتا ہے کہ شاید دھماکے سے ہونے والی موت انکے لیئے اس افلاس زدہ زندگی سے آزادی کا پروانہ ہو۔ لیکن یہ جو میرے سے اگلی صف میں نہا دھوکر، سر پر ٹوپی پہن کر میٹرک کا طالب علم ارسلان کھڑا ہے۔اسکا کیا ہوگا۔اسکا باپ تسکین انجم نابینا ہے، اسکی ماں بھی نابینا ہے۔ تو نے ان دونوں پر رحم کیا اور انہیں بینا اولاد سے نوازا۔ لیکن ابھی جب ہماری پشت پر گولیاں برسیں گی اور بارودی لباس پہنے ہوئے تیرے چاہنے والے پھٹیں گے تو بارود بینا اور نابینا کی تمیز نہیں کرے گا۔ تو کیا ارسلان کو اجازت مل سکتی ہے کہ وہ گھر پر بیٹھ کر، ریموٹ کنٹرول کی تسبیح بنا کر تیری بندگی کا فریضہ ادا کر لیا کرے۔
 

arifkarim

معطل
سوشل انجینئرنگ کی ایک بھونڈی مثال۔ جب انسانوں کو حالات کے رحم و کرم پر مارکیٹ پرائسز کی طرح چھوڑ دیا جائے تو ایسا ہی ہوتا ہے! پیسے کی بھاگ دوڑ نے انسان کو الو بنا دیا ہے۔ پہلے انسانیت، حقیقت، سچائی، اور نیکی بولتی تھی۔ آجکل صرف پیسا بولتا ہے! یہی فتنہ دجال ہے! :grin:
 
Top