شمشاد بھائى ميں نے عرض كيا كہ مسئلے ميں اختلاف ہے اس ليے اخبار كا اسے كلى طور پر دين ايمان كا مسئلہ بنانا غلط ہے ۔ ہاں نجس نہ ہونے كا يہ مطلب نہيں كہ ہم اس سے بنى چيزيں اشيائے خوردو نوش يا سامان آرائش استعمال كرنے كى وكالت كر رہے ہيں ۔ لوگ اگراس سے كراہت كا اظہار كريں تو ان كا حق ہے۔ مثلا ناخن كا ميل نجس نہيں ليكن ہم ميں سے كسى كو بھی وہ اچھا نہيں لگتا ۔ اب نجاست اور گندا سمجھنے ميں فرق ہے دونوں کے جدا جدا احكام ہيں۔
شريعت كے احكام كى رخصتيں بڑی رحمت بھرى ہوتى ہيں ، سب انسان دفترى بابو نہيں ہوتے ۔ جوانسان حلال جانوروں کے فارم ميں كام كرتا ہے وہ دن كى ہر نماز كے ليے كپڑے بدلے اور نہائے كہ اس كا لباس تو بار بار نجس ہو گا ۔پولٹرى كا كام كرنے والے مرغ كى بيٹ سے بچيں يا كام كريں؟
یہ تو مجھے بھی علم ہے کہ بڑے سے بڑے ہندو کے گھر میں چولہا چوکا کی جگہ کچی ہوتی ہے اور وہ روزانہ اس کا لیپ کرتے ہیں جس میں گائے کا گوبر ضرور ہوتا ہے۔
ہمارے مسلمان ديہات ميں زراعت اور مويشى پالنے سے منسلك افراد كے گھروں ميں گائے بھينس كا گوبر مسلمان عورتيں خود اكٹھا كرتى ہيں اس كے اپلے تھاپتی ہيں اور گھروں كى ديواروں پر صحن ميں چھتوں پر كھلى دھوپ ميں ان اپلوں كو سكھاتے ہيں وہيں بچے کھيلتے ہيں ، انہی اپلوں كو چولہوں ميں جلاتے ہيں ان پر كھانا پكاتے ہيں ۔ اب كھانا پكانے والى جو اپلے توڑ توڑ كر چولہے ميں جھونكتى ہے اس كى ظہر اور مغرب كى نماز كا كيا ہو گا عموما يہ دوپہر اور شام كے كھانے كى تيارى كے دوران آتى ہيں ؟
شايد يہ بحث بھی جرابوں کے مسح اور
ضب كى حلت وحرمت كى طرح تعصب كا شكار ہو جائے ليكن مثبت سوچ ركھنے والوں كو تمسخر سے ہٹ كر درست بات كرنى چاہیے ۔