محسن وقار علی
محفلین
بہت ساری خبروں میں سے ایک خبر یہ ہے کہ سوہاوہ کے نواحی علاقے ڈومیلی کے قصبے چنجلوٹ میں ایک میاں بیوی کے جوڑے کو قتل کردیا گیا ہے۔ قتل کی وجہ پسند کی شادی بتائی جاتی ہے۔ یہ قتل رات کی تاریکی میں ایک ریٹائرڈ ڈی ایس پی کے مزارع محمد لقمان اور اس کی بیوی فیروزاں کا ہوا۔ دونوں نے پسند کی شادی کررکھی تھی۔ مقتولین نے اپنے پیچھے صرف پندرہ دنوں کی ایک بچی کو لاوارث کی حیثیت سے چھوڑا ہے۔ خبر میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بفضل تعالیٰ پولیس نے تفتیش شروع کردی ہے۔
مرنے والے تو مرگئے۔ قتل ہونے والے قتل ہوگئے۔ ذرا تصور کریں کہ اس پندرہ دنوں کی معصوم بچی کا کیا ہوگا۔ مقتولین کو جس نے بھی قتل کیا ہے اس نے اپنی حسد کی آگ کو ٹھنڈا کردیا ہوگا۔ اپنی خود ساختہ عزت کا بدلہ بھی لے لیا ہوگا۔ اپنی ضد پوری ہونے پر خوش بھی ہوگا۔ عین ممکن ہے اپنے دوستوں اور قریبی ساتھیوں کے درمیان بیٹھ کر فخرسے قتل کی تفصیلات بھی بتاتا ہوگا۔ ان سب باتوں کے باوجود مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ اس سارے واقعے کے سب سے بڑے اور زندہ مظلوم کے بارے میں اس قابل گردن زدنی سفّاک آدمی کے کیا خیالات ہوں گے؟ کیونکہ ایسے لوگوں کے جذبات تو ہوتے ہی نہیں جس قسم کے جذبات ان لوگوں کے ہوتے ہیں وہ ان کی حرکتوں اور کرتوتوں سے ظاہر ہیں۔
ہماری بدبختی یہ ہی نہیں ہے کہ ہم قانون کو ہاتھ میں لینے کے عادی ہوچکے ہیں جس کا چرچا باربار ہوتا رہتا ہے۔ ہم تو اب مذہب اور دین کو بھی ہاتھ میں لینے کے عادی ہو چکے ہیں۔ اس پسند کی شادی کو ہی لیجیے جس کی وجہ سے ایک شرعاً بے گناہ جوڑا قتل کردیاگیا۔ بے گناہ اس لیے کہ وہ باقاعدہ نکاح کے بندھن میں جڑے ہوئے تھے۔ ان کی اولاد جائز اولاد تھی۔ خدا اور رسول بھی نکاح کے معاملے میں عورت اور مرد کی باہمی رضامندی کو نہ صرف جائز قرار دیتے ہیں بلکہ لازمی قرار دیتے ہیں۔
اسلامی تاریخ کے ہر طالب علم کو معلوم ہے کہ سرور کائناتؐ کی حضرت خدیجہؓ سے شادی خود حضرت خدیجہ کے پیغام کے باعث انجام پائی تھی۔ جب تک عورت۔ ’’قبول‘‘ ہے ’’قبول‘‘ ہے نہ کہے کسی بھی فقّہ کا نکاح نہیں ہوسکتا۔ ان ساری باتوں کو سامنے رکھ کر یہ نتیجہ بڑی آسانی سے لگایا جاسکتا ہے کہ جس شخص نے بھی اس جوڑے کو قتل کیا ہے اس نے دین کو اپنے ہاتھ میں لیا ہے۔ قانون کو ہاتھ میں لینا جرم ہے تو دین کو ہاتھ میں لینے کے بارے میں کیا کہا جائے گا۔
جوں جوں ہم قانون اور مذہب کو اپنے ہاتھوں میں لینے کے عادی اور مرتکب ہوتے رہیں گے ہم دین اور دنیا دونوں سے دُور ہوتے جائیں گے۔ ہم پر نظر رکھنے والے اور ہم میں سے نہ ہوتے ہوئے ہمیں دور دراز سے دیکھنے والے سبھی لوگ ہمیں پورے اعتماد اور یقین کے ساتھ دین اور مذہب دونوں سے دُور ہی سمجھتے ہیں اور صحیح سمجھتے ہیں۔ ایک صرف ہم ہیں جو خود کو غلط تسلیم کرنے سے انکاری ہیں اور اس ہٹ دھرمی پر مُصر ہیں جس کا انجام اس کے آغاز سے بہتر نہیں ہوسکتا۔ خدا ہمارا انجام بخیرکرے۔
کس قدر فرق ہے انسان کی بے صبری اور سفّاکیت میں اور خالق کائنات کے عدل وانصاف اور رحم وکرم میں۔ انسان جب اپنی سفاکیت کے تحت کسی کا خون کرتا ہے تو بھول جاتا ہے کہ مقتول نے اگر اس کا کچھ بگاڑا ہوگا تو ہوگا لیکن اس کی پندرہ روزہ معصوم بچی کو جسے عورت کی ماں کے روپ میں ضرورت تھی وہ اسے کہاں سے ملے گی؟ اس کی بھوک اور پیاس اس کا رونا اور تڑپنا اور اس درد کا جس کے بارے میں وہ خود بھی شعور نہیں رکھتی کون مداوا کرے گا۔ یہ کیسے ہوگا کہ وہ بڑی ہوتی رہے اور بھیڑیوں سے محفوظ بھی رہے یہ کیسے ہوگا کہ وہ اپنے آپ کو پہچان سکے کیونکہ اس عمر میں کسی بھی بچے کی پہچان اس کے ماں باپ ہی ہوتے ہیں۔ اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ وہ خود بھی نہیں ہوسکتا یا ہوسکتی۔
ممکن ہے کسی دن کسی ٹی وی چینل کی کوئی خاتون رپورٹر اس بچی کے بارے میں ایک پروگرام پیش کرے اور اس کی دل دہلا دینے والی صورت حال کو کچھ اس انداز سے پیش کرے کہ دو چار خدا ترسیدہ اور متمول خاندان اس بچی کو گود لینے کی پیش کش کریں اور اس کے بھاگ کُھل جائیں۔ لیکن یہ سب باتیں ممکنیات کے دائرے میں ہیں اور ان کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جاسکتی۔
بہرحال ان باتوں میں نہ تو اس جرم اور نہ ہی اس گناہ عظیم کی ہولناکیوں میں کوئی کمی واقع ہوسکتی ہے جن کا قاتل مرتکب ہوا ہے اور جن کے بارے میں تفتیش کرنے والی پولیس سمیت ارد گرد کے سارے کرداروں کو کوئی احساس نہیں ہے۔ یہ ریت ہابیل کے ہاتھوں قابیل کے قتل کے دن سے جاری ہے اور اس دن سے ہی اس قبیح حرکت کا احساس معدوم سے معدوم تر ہوتا چلا گیا ہے۔ اور آج کم از کم ہمارے معاشرے میں معدوم ہوتے ہوتے ختم ہی ہوگیا ہے۔ اس احساس کو دوبارہ زندہ کرنا ہوگا اور اپنے گمانوں کو قانون اور دین کے تابع کرنا ہوگا کیونکہ اپنے گمانوں کا پیچھا کرنے سے باقاعدہ طور پر منع فرمایا گیا ہے۔
دین نے دیت کا نظام محض اسی لیے روا رکھا ہے کیونکہ خدا کی مخلوق کا کوئی اور شاہکار اپنے بچپنے میں ماں باپ کی شفقت سے محروم نہ کردیاجائے۔ اسی نظام کے تحت یتیم کا رتبہ بہت بلند رکھا گیا۔ اس کا مال کھانا اور اس کی وارثت غصب کرنا حرام قرار دیاگیاہے اس کے خیال رکھنے کا بے پناہ اجر ہے اور اس کے ساتھ حُسن سلوک دین و دنیا میں سرخرو ہونے کا ذریعے قرار دیا گیاہے ایسا کیوں نہ ہو کیونکہ جس کے لیے یہ پوری کائنات تخلیق کی گئی وہ یتیمؐ تھا ہمیں غالباً یہ معلوم نہیں کہ پوری کائنات اس یتیمؐ کے بغیر یتیم ہوسکتی ہے۔
میری صرف یہ دعا ہے کہ کوئی اس یتیم بچی کو پوری کائنات کو یتیمی سے بچانے کے لیے اس یتیمؐ کے صدقے میں اپنی گود لے لے۔
خدا ہم سب کا حامی وناصرہو۔ آمین
بہ شکریہ روزنامہ ایکسپریس
مرنے والے تو مرگئے۔ قتل ہونے والے قتل ہوگئے۔ ذرا تصور کریں کہ اس پندرہ دنوں کی معصوم بچی کا کیا ہوگا۔ مقتولین کو جس نے بھی قتل کیا ہے اس نے اپنی حسد کی آگ کو ٹھنڈا کردیا ہوگا۔ اپنی خود ساختہ عزت کا بدلہ بھی لے لیا ہوگا۔ اپنی ضد پوری ہونے پر خوش بھی ہوگا۔ عین ممکن ہے اپنے دوستوں اور قریبی ساتھیوں کے درمیان بیٹھ کر فخرسے قتل کی تفصیلات بھی بتاتا ہوگا۔ ان سب باتوں کے باوجود مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ اس سارے واقعے کے سب سے بڑے اور زندہ مظلوم کے بارے میں اس قابل گردن زدنی سفّاک آدمی کے کیا خیالات ہوں گے؟ کیونکہ ایسے لوگوں کے جذبات تو ہوتے ہی نہیں جس قسم کے جذبات ان لوگوں کے ہوتے ہیں وہ ان کی حرکتوں اور کرتوتوں سے ظاہر ہیں۔
ہماری بدبختی یہ ہی نہیں ہے کہ ہم قانون کو ہاتھ میں لینے کے عادی ہوچکے ہیں جس کا چرچا باربار ہوتا رہتا ہے۔ ہم تو اب مذہب اور دین کو بھی ہاتھ میں لینے کے عادی ہو چکے ہیں۔ اس پسند کی شادی کو ہی لیجیے جس کی وجہ سے ایک شرعاً بے گناہ جوڑا قتل کردیاگیا۔ بے گناہ اس لیے کہ وہ باقاعدہ نکاح کے بندھن میں جڑے ہوئے تھے۔ ان کی اولاد جائز اولاد تھی۔ خدا اور رسول بھی نکاح کے معاملے میں عورت اور مرد کی باہمی رضامندی کو نہ صرف جائز قرار دیتے ہیں بلکہ لازمی قرار دیتے ہیں۔
اسلامی تاریخ کے ہر طالب علم کو معلوم ہے کہ سرور کائناتؐ کی حضرت خدیجہؓ سے شادی خود حضرت خدیجہ کے پیغام کے باعث انجام پائی تھی۔ جب تک عورت۔ ’’قبول‘‘ ہے ’’قبول‘‘ ہے نہ کہے کسی بھی فقّہ کا نکاح نہیں ہوسکتا۔ ان ساری باتوں کو سامنے رکھ کر یہ نتیجہ بڑی آسانی سے لگایا جاسکتا ہے کہ جس شخص نے بھی اس جوڑے کو قتل کیا ہے اس نے دین کو اپنے ہاتھ میں لیا ہے۔ قانون کو ہاتھ میں لینا جرم ہے تو دین کو ہاتھ میں لینے کے بارے میں کیا کہا جائے گا۔
جوں جوں ہم قانون اور مذہب کو اپنے ہاتھوں میں لینے کے عادی اور مرتکب ہوتے رہیں گے ہم دین اور دنیا دونوں سے دُور ہوتے جائیں گے۔ ہم پر نظر رکھنے والے اور ہم میں سے نہ ہوتے ہوئے ہمیں دور دراز سے دیکھنے والے سبھی لوگ ہمیں پورے اعتماد اور یقین کے ساتھ دین اور مذہب دونوں سے دُور ہی سمجھتے ہیں اور صحیح سمجھتے ہیں۔ ایک صرف ہم ہیں جو خود کو غلط تسلیم کرنے سے انکاری ہیں اور اس ہٹ دھرمی پر مُصر ہیں جس کا انجام اس کے آغاز سے بہتر نہیں ہوسکتا۔ خدا ہمارا انجام بخیرکرے۔
کس قدر فرق ہے انسان کی بے صبری اور سفّاکیت میں اور خالق کائنات کے عدل وانصاف اور رحم وکرم میں۔ انسان جب اپنی سفاکیت کے تحت کسی کا خون کرتا ہے تو بھول جاتا ہے کہ مقتول نے اگر اس کا کچھ بگاڑا ہوگا تو ہوگا لیکن اس کی پندرہ روزہ معصوم بچی کو جسے عورت کی ماں کے روپ میں ضرورت تھی وہ اسے کہاں سے ملے گی؟ اس کی بھوک اور پیاس اس کا رونا اور تڑپنا اور اس درد کا جس کے بارے میں وہ خود بھی شعور نہیں رکھتی کون مداوا کرے گا۔ یہ کیسے ہوگا کہ وہ بڑی ہوتی رہے اور بھیڑیوں سے محفوظ بھی رہے یہ کیسے ہوگا کہ وہ اپنے آپ کو پہچان سکے کیونکہ اس عمر میں کسی بھی بچے کی پہچان اس کے ماں باپ ہی ہوتے ہیں۔ اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ وہ خود بھی نہیں ہوسکتا یا ہوسکتی۔
ممکن ہے کسی دن کسی ٹی وی چینل کی کوئی خاتون رپورٹر اس بچی کے بارے میں ایک پروگرام پیش کرے اور اس کی دل دہلا دینے والی صورت حال کو کچھ اس انداز سے پیش کرے کہ دو چار خدا ترسیدہ اور متمول خاندان اس بچی کو گود لینے کی پیش کش کریں اور اس کے بھاگ کُھل جائیں۔ لیکن یہ سب باتیں ممکنیات کے دائرے میں ہیں اور ان کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جاسکتی۔
بہرحال ان باتوں میں نہ تو اس جرم اور نہ ہی اس گناہ عظیم کی ہولناکیوں میں کوئی کمی واقع ہوسکتی ہے جن کا قاتل مرتکب ہوا ہے اور جن کے بارے میں تفتیش کرنے والی پولیس سمیت ارد گرد کے سارے کرداروں کو کوئی احساس نہیں ہے۔ یہ ریت ہابیل کے ہاتھوں قابیل کے قتل کے دن سے جاری ہے اور اس دن سے ہی اس قبیح حرکت کا احساس معدوم سے معدوم تر ہوتا چلا گیا ہے۔ اور آج کم از کم ہمارے معاشرے میں معدوم ہوتے ہوتے ختم ہی ہوگیا ہے۔ اس احساس کو دوبارہ زندہ کرنا ہوگا اور اپنے گمانوں کو قانون اور دین کے تابع کرنا ہوگا کیونکہ اپنے گمانوں کا پیچھا کرنے سے باقاعدہ طور پر منع فرمایا گیا ہے۔
دین نے دیت کا نظام محض اسی لیے روا رکھا ہے کیونکہ خدا کی مخلوق کا کوئی اور شاہکار اپنے بچپنے میں ماں باپ کی شفقت سے محروم نہ کردیاجائے۔ اسی نظام کے تحت یتیم کا رتبہ بہت بلند رکھا گیا۔ اس کا مال کھانا اور اس کی وارثت غصب کرنا حرام قرار دیاگیاہے اس کے خیال رکھنے کا بے پناہ اجر ہے اور اس کے ساتھ حُسن سلوک دین و دنیا میں سرخرو ہونے کا ذریعے قرار دیا گیاہے ایسا کیوں نہ ہو کیونکہ جس کے لیے یہ پوری کائنات تخلیق کی گئی وہ یتیمؐ تھا ہمیں غالباً یہ معلوم نہیں کہ پوری کائنات اس یتیمؐ کے بغیر یتیم ہوسکتی ہے۔
میری صرف یہ دعا ہے کہ کوئی اس یتیم بچی کو پوری کائنات کو یتیمی سے بچانے کے لیے اس یتیمؐ کے صدقے میں اپنی گود لے لے۔
خدا ہم سب کا حامی وناصرہو۔ آمین
بہ شکریہ روزنامہ ایکسپریس