آج کل موسم سیاسی پتنگیں اڑانے کے لیئے بہت ہی موافق ہے ۔ اسی مناسبت سے ہر کوئی اپنا نقطہ نظر اپنی جماعت بندی کے حوالے سے پیش کرتا رہتا ہے ۔ مگر ملکی سیاست کو میں کسی اور نظر سے دیکھتا ہوں ۔ ہوسکتا ہے دوست اس تجزیے سے اتفاق نہ کریں ۔ چونکہ میں کسی سیاسی جماعت اور شخصیت کا اسیر نہیں ہوں ۔ لہذا اپنے رائے کو مکمل طور پر غیر جانبدار رکھنے کی کوشش کرتا ہوں ۔ یہ تجزیہ بھی انہی کوششوں کی مرہونِ منت ہے ۔
ماضی سے یہ بات ثابت ہے کہ عدلیہ کے بعض فیصلوں کی وجہ سے مارشل لاؤں کا آئینی حیثیت حاصل ہوتی رہی ہے ۔ " عوامی حکومتوں " نے بھی عدلیہ سے وہی کام لیئے جو فوجی حکومتوںکا طرہ امتیاز رہا ہے ۔ موجودہ سیاسی صورتحال نہ صرف تشویشناک ہے بلکہ بہت پیچیدہ بھی ہے ۔ کچھ ڈانڈوںکا سلسلہ اندورنی اور خارجی طور پر دراز نظر آرہا ہے ۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس سازش کا ہدف پاکستان کا استحکام ،اقتصادیات اور سالمیت ہے ۔ فی الوقت اس سازش کا آغاز ملک میں عدلیہ کی آڑ میں بڑے پیمانے پر ملک میں افراتفری اور انتشار پیدا کرنا ہے ۔ جس سے لاء اور آرڈر کا مسئلہ پیدا کیا جائے ۔ جس میں خاطر خواہ کامیابی ہوئی ہے ۔ اور ملک ایمرجینسی کی گرفت میں ہے ۔ اس وقت ملک کا چاروں طرف سے گھیراؤ ہوچکا ہے ۔ بھارت ، امریکہ کی دوستی کے نعروں کے ساتھ پاکستان کے خلاف اپنا آخری حربہ استعمال کر رہا ہے ۔ اور اس کی دیرینہ آرزو ہے کہ پاکستان کو توڑا جائے یا پھر اقتصادی طور پر اتنا کمزور کیا جائے کہ اس خطے میں سر نہ اٹھا سکے ۔ پاکستان کے موجودہ بحرانوں میں بھارت کی مشکوک کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ جو پاکستان معاشرے میں باہمی نفرتوںکو پھیلا کر مسلمانوں کا آپس میں لڑانا چاہتے ہیں ۔ اور پاکستان مسلمان ایسے نادان ہیں کہ ان کا ایجنڈا پورا کر رہے ہیں ۔ مگر کچھ ترقی پسند سوچ رکھنے والی پارٹیاں اُن سیاسی جماعتوں کے ساتھ نہیں جو عدلیہ کی آزادی کی آڑ میں اس ایجنڈے میں اپنا کردار بخیروخوبی انجام دے رہے ہیں ۔
ویسے بھی ایک عام پاکستان جانتا ہے کہ اس وقت پاکستان کو یکسوئی کے ساتھ اقتصادی ترقی کی طرف گامزن ہونا تھا ۔ کیوں کہ اس خطے میں بھارت سمیت چھوٹے چھوٹے ممالک بھی انتہائی تیزی سے ترقی کر رہے ہیں ۔ مگر پاکستان کی ترقی کا گراف موجودہ سیاسی بحران کی وجہ سے گرتا ہوا نظر آرہا ہے ۔ اگر پاکستان کے یہ بڑھتے ہوئے قدم اقتصادی ترقی میں رک گئے تو مستقبل میں اس کے انتہائی سنگین نتائج سامنے آسکتے ہیں ۔ اور پھر کوئی بھی حکومت آجائے وہ یکسوئی اور اطمینان کے ساتھ کام کرنے سے قاصر ہوگی ۔ جس سے ملک میں غربت اور بیروزگاری میں بے انتہا اضافہ ہوجائے گا ۔ اور جب اس قسم کے حالات پیدا ہوجائیں گے تو کوئی بھی سیاسی جماعت عوام کے دکھ بانٹنے نہیں آئے گی ۔ اس قسم کی صورتحال کا نظارہ عوام نے 1977 میں بھٹو مرحوم کے خلاف پی این اے کی تحریک میں دیکھ لیا ہے ۔ اس وقت پی این اے نے عوام کو خوب دلفریب نعروں نوازا تھا کہ ملک میں روزگار آجائے گا ، کرپشن ختم ہوجائے گی ، مہنگائی کا خاتمہ ہوجائے گا اور جہموریت اپنی تمام روایتی خوبیوں کیساتھ رائج ہوجائے گی اور عوام خوب راج کرے گی ۔ مگر پھر کیا ہوا ۔ ؟ پی این اے کی تحریک نے جنرل ضیاء کو اقتدار پر بٹھا دیا ۔ اپنے گیارہ سالہ اقتدار میں انہوں نے سوچوں پر پہرے بٹھا دیئے ، انفرادی آزادی اور خواتین کے حقوق سلب کر لیئے اور پورے معاشرے کا اسلام کے نام پر مسلکوں میں تقسیم کردیا ۔ اس وقت کے صالحین نے ضیاء کے ہاتھ مضبوط کیئے ۔ اور ان تمام افراد کو غیر موثر کر دیا جو ضیاء کی پالیسوں کے خلاف تھے ۔ آج کی صورتحال کو دیکھیں کہ اس وقت کیا ہو رہا ہے ۔ وہی عناصر جنہوں نے اسلام اور جہموریت کے نام پر ضیاءالحق کے ہاتھوں حکومت دی تھی اب وہی عدلیہ کی آزادی کی آڑ میں ایک بار پھر محترک ہوگئے ہیں ۔ اور عوام کو سڑکوں پر لا رہے ہیں ۔ لوگوں کو مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ استعفیں دیں ۔ ہم آکر بڑے عہدے دیں گے ۔ یہ حکومت جانے والی ہے ۔ صحافیوں کو کہا جارہا ہے وہ بھی اس تحریک میں حصہ لیں ۔ حکومت جائے گی یا نہیں جائے گی ۔ اس پر بحث مقصود نہیں ۔ ہاں مگر یہ ضرور ہوگا کہ ملک میں خانہ جنگی کی صورتحال پیدا ہوجائے گی ۔ ( جس کا آغاز بھی ہوچکا ہے ) ۔ اور اس سے ملک پھر کہاں کھڑا ہوجائے گا اس کا قیاس کرنا شاید اتنا مشکل بھی نہیں ہے ۔
ماضی سے یہ بات ثابت ہے کہ عدلیہ کے بعض فیصلوں کی وجہ سے مارشل لاؤں کا آئینی حیثیت حاصل ہوتی رہی ہے ۔ " عوامی حکومتوں " نے بھی عدلیہ سے وہی کام لیئے جو فوجی حکومتوںکا طرہ امتیاز رہا ہے ۔ موجودہ سیاسی صورتحال نہ صرف تشویشناک ہے بلکہ بہت پیچیدہ بھی ہے ۔ کچھ ڈانڈوںکا سلسلہ اندورنی اور خارجی طور پر دراز نظر آرہا ہے ۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس سازش کا ہدف پاکستان کا استحکام ،اقتصادیات اور سالمیت ہے ۔ فی الوقت اس سازش کا آغاز ملک میں عدلیہ کی آڑ میں بڑے پیمانے پر ملک میں افراتفری اور انتشار پیدا کرنا ہے ۔ جس سے لاء اور آرڈر کا مسئلہ پیدا کیا جائے ۔ جس میں خاطر خواہ کامیابی ہوئی ہے ۔ اور ملک ایمرجینسی کی گرفت میں ہے ۔ اس وقت ملک کا چاروں طرف سے گھیراؤ ہوچکا ہے ۔ بھارت ، امریکہ کی دوستی کے نعروں کے ساتھ پاکستان کے خلاف اپنا آخری حربہ استعمال کر رہا ہے ۔ اور اس کی دیرینہ آرزو ہے کہ پاکستان کو توڑا جائے یا پھر اقتصادی طور پر اتنا کمزور کیا جائے کہ اس خطے میں سر نہ اٹھا سکے ۔ پاکستان کے موجودہ بحرانوں میں بھارت کی مشکوک کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ جو پاکستان معاشرے میں باہمی نفرتوںکو پھیلا کر مسلمانوں کا آپس میں لڑانا چاہتے ہیں ۔ اور پاکستان مسلمان ایسے نادان ہیں کہ ان کا ایجنڈا پورا کر رہے ہیں ۔ مگر کچھ ترقی پسند سوچ رکھنے والی پارٹیاں اُن سیاسی جماعتوں کے ساتھ نہیں جو عدلیہ کی آزادی کی آڑ میں اس ایجنڈے میں اپنا کردار بخیروخوبی انجام دے رہے ہیں ۔
ویسے بھی ایک عام پاکستان جانتا ہے کہ اس وقت پاکستان کو یکسوئی کے ساتھ اقتصادی ترقی کی طرف گامزن ہونا تھا ۔ کیوں کہ اس خطے میں بھارت سمیت چھوٹے چھوٹے ممالک بھی انتہائی تیزی سے ترقی کر رہے ہیں ۔ مگر پاکستان کی ترقی کا گراف موجودہ سیاسی بحران کی وجہ سے گرتا ہوا نظر آرہا ہے ۔ اگر پاکستان کے یہ بڑھتے ہوئے قدم اقتصادی ترقی میں رک گئے تو مستقبل میں اس کے انتہائی سنگین نتائج سامنے آسکتے ہیں ۔ اور پھر کوئی بھی حکومت آجائے وہ یکسوئی اور اطمینان کے ساتھ کام کرنے سے قاصر ہوگی ۔ جس سے ملک میں غربت اور بیروزگاری میں بے انتہا اضافہ ہوجائے گا ۔ اور جب اس قسم کے حالات پیدا ہوجائیں گے تو کوئی بھی سیاسی جماعت عوام کے دکھ بانٹنے نہیں آئے گی ۔ اس قسم کی صورتحال کا نظارہ عوام نے 1977 میں بھٹو مرحوم کے خلاف پی این اے کی تحریک میں دیکھ لیا ہے ۔ اس وقت پی این اے نے عوام کو خوب دلفریب نعروں نوازا تھا کہ ملک میں روزگار آجائے گا ، کرپشن ختم ہوجائے گی ، مہنگائی کا خاتمہ ہوجائے گا اور جہموریت اپنی تمام روایتی خوبیوں کیساتھ رائج ہوجائے گی اور عوام خوب راج کرے گی ۔ مگر پھر کیا ہوا ۔ ؟ پی این اے کی تحریک نے جنرل ضیاء کو اقتدار پر بٹھا دیا ۔ اپنے گیارہ سالہ اقتدار میں انہوں نے سوچوں پر پہرے بٹھا دیئے ، انفرادی آزادی اور خواتین کے حقوق سلب کر لیئے اور پورے معاشرے کا اسلام کے نام پر مسلکوں میں تقسیم کردیا ۔ اس وقت کے صالحین نے ضیاء کے ہاتھ مضبوط کیئے ۔ اور ان تمام افراد کو غیر موثر کر دیا جو ضیاء کی پالیسوں کے خلاف تھے ۔ آج کی صورتحال کو دیکھیں کہ اس وقت کیا ہو رہا ہے ۔ وہی عناصر جنہوں نے اسلام اور جہموریت کے نام پر ضیاءالحق کے ہاتھوں حکومت دی تھی اب وہی عدلیہ کی آزادی کی آڑ میں ایک بار پھر محترک ہوگئے ہیں ۔ اور عوام کو سڑکوں پر لا رہے ہیں ۔ لوگوں کو مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ استعفیں دیں ۔ ہم آکر بڑے عہدے دیں گے ۔ یہ حکومت جانے والی ہے ۔ صحافیوں کو کہا جارہا ہے وہ بھی اس تحریک میں حصہ لیں ۔ حکومت جائے گی یا نہیں جائے گی ۔ اس پر بحث مقصود نہیں ۔ ہاں مگر یہ ضرور ہوگا کہ ملک میں خانہ جنگی کی صورتحال پیدا ہوجائے گی ۔ ( جس کا آغاز بھی ہوچکا ہے ) ۔ اور اس سے ملک پھر کہاں کھڑا ہوجائے گا اس کا قیاس کرنا شاید اتنا مشکل بھی نہیں ہے ۔