افتخار عارف پس چہ باید کرد

نیرنگ خیال

لائبریرین
آج ظہیراحمدظہیر صاحب کے توجہ دلانے پر ہم نے دیکھا تو پتا چلا کہ افتخار عارف صاحب کی یہ مشہور زمانہ نظم محفل تو درکنار اردو ٹائپنگ میں ہی میسر نہیں۔ سو ریختہ سے دیکھ کر ٹائپ کر دی۔

پس چہ باید کرد

خواب خس خانہ و برفاب کے پیچھے پیچھے
گرمیٔ شہر مقدر کے ستائے ہوئے لوگ
کیسی یخ بستہ زمینوں کی طرف آنکلے

موج خوں برف ہوئی جاتی ہے سانسیں بھی ہیں برف
وحشتیں جن کا مقدر تھیں وہ آنکھیں بھی ہیں برف
دل شوریدہ کا مواج سمندر بھی ہے برف
یاد یاران دل آویز کا منظر بھی ہے برف
ایک اک نام ہر آواز ہر اک چہرہ برف
منجمد خواب کی ٹکسال کا ہر سکہ برف
اور اب سوچتے ہیں شام و سحر سوچتے ہیں
خواب خس خانہ و برفاب سے وہ آگ بھلی
جس کے شعلوں میں بھی قرطاس و قلم زندہ ہیں
جس میں ہر عہد کے ہر نسل کے غم زندہ ہیں
خاک ہو کر بھی یہ لگتا تھا کہ ہم زندہ ہیں

افتخار عارف​
 

نیرنگ خیال

لائبریرین

محمداحمد

لائبریرین
اور اب سوچتے ہیں شام و سحر سوچتے ہیں
خواب خس خانہ و برفاب سے وہ آگ بھلی
جس کے شعلوں میں بھی قرطاس و قلم زندہ ہیں
جس میں ہر عہد کے ہر نسل کے غم زندہ ہیں
خاک ہو کر بھی یہ لگتا تھا کہ ہم زندہ ہیں

سبحان اللہ !

کیا خوبصورت کلام ہے۔

افتخار عارف میرے آل ٹائم فیورٹ!

شکریہ ذوالقرنین بھائی!
 
Top