پشاور: گرجا گھر کے باہر 2خود کش دھماکے، 56 افراد ہلاک

معروف اسلامی فرقوں اور مکاتب فکر کے تمام مفتیان و علماء اس قسم کو حملے کو حرام و ناجائز کہہ چکے ہیں ، سو انکی حمایت کرنے والا کوئی زی شعور نہیں ۔۔۔
اگر آپ کی مراد حمایت سے ان متحارب گروہ سے مذاکرات کی طرف اشارہ ہے تو یہ مختلف بات ہے کیونکہ یہ بھی عین ممکن ہے کہ مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کے لیے ایسی کارروائی کسی اور نے کی اور نام کسی اور پر ڈال دیا جائے ، عین ممکن ہے کہ پاکستان دشمن بیرونی ہاتھ ہو (یہ میں انکی حمایت میں ہرگز نہیں بول رہا بلکہ خدشات کا اظہار کررہا ہوں) ۔۔۔ ۔
جبکہ پاکستان میں کئی متحارب گروہ ہے ، ان سے مذاکرات ضرور کرے کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ ہم امریکہ کی جنگ لڑتے لڑتے کمزور ہوچکے ہیں اور اب ہم مذید جنگ اور ہلاکتوں کے متحمل نہیں ہوسکتے ۔۔۔
متحارب گروہ ڈرائیونگ سیٹ پر ہے سو ان کی ہی سننے پڑے گی ، اگر ناجائز مطالبات ہوئے اور ہتھیار نہ پھینکے تو مارو یا مرجاؤ کے سوا کیا بچتا ہے ؟
جناب یہی تو مسئلہ ہے کہ سیدھی سی بات کو الجھادیا گیا ہے۔۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ تمام مکاتبِ فکر اور مسالک کے علماء نے بیشک اس قسم کے حملوں کو حرام و ناجائز قرار دے دیا ہوا ہے۔۔لیکن اختلاف اس بات پر کیا جاتا ہے کہ یہ حملے کرنے والے کون ہیں۔۔۔طالبان اور کالعدم تنظیموں کے حامی یہ کہتے ہیں کہ یہ لوگ یہ حملے نہیں کر رہے بلکہ کوئی اور فریق یہ سب حملے کروارہا ہے اور نام انکا لگا رہا ہے۔ ہے نا بچگانہ بات؟۔ کیونکہ یہاں ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے۔۔اگر یہ سب کاروائیاں طالبان اور ان جیسی عسکری تنظیمیں نہیں کر رہیں، پھر مذاکرات کا کیا مقصد باقی رہ جاتا ہے؟ کیونکہ جب ایسا کوئی مسئلہ ہے ہی نہیں، تب ہم طالبان اور ان تنظیموں سے کس موضوع پر مذاکرات کرنے جارہے ہیں؟
 

شمشاد

لائبریرین
1237683_587428287964913_758751704_n.jpg
کسی اور کو تو اتنی بھی توفیق نہیں ہوئی۔
 

شمشاد

لائبریرین
کچھ لوگوں اور ان کے لیڈروں کے اعصاب پر عمران خان اس بُری طرح سوار ہے کہ رات کو ٹھیک سے سو بھی نہیں سکتے۔

اللہ ہی ہے جو ان کے حال پر رحم فرمائے۔
 
جناب یہی تو مسئلہ ہے کہ سیدھی سی بات کو الجھادیا گیا ہے۔۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ تمام مکاتبِ فکر اور مسالک کے علماء نے بیشک اس قسم کے حملوں کو حرام و ناجائز قرار دے دیا ہوا ہے۔۔لیکن اختلاف اس بات پر کیا جاتا ہے کہ یہ حملے کرنے والے کون ہیں۔۔۔ طالبان اور کالعدم تنظیموں کے حامی یہ کہتے ہیں کہ یہ لوگ یہ حملے نہیں کر رہے بلکہ کوئی اور فریق یہ سب حملے کروارہا ہے اور نام انکا لگا رہا ہے۔ ہے نا بچگانہ بات؟۔ کیونکہ یہاں ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے۔۔اگر یہ سب کاروائیاں طالبان اور ان جیسی عسکری تنظیمیں نہیں کر رہیں، پھر مذاکرات کا کیا مقصد باقی رہ جاتا ہے؟ کیونکہ جب ایسا کوئی مسئلہ ہے ہی نہیں، تب ہم طالبان اور ان تنظیموں سے کس موضوع پر مذاکرات کرنے جارہے ہیں؟
مذاکرات کا مقصد ، مذید خون خرابہ روکنا ہے ، بس۔۔۔۔
کیا بھارت سے جنگ کے بعد جنگ بندی نہیں ہوئی ؟ اور کیا جنگ بندی کے بعد بھارت ، بھارت پرامن رہنے لگا ؟ نہیں نا ؟ (بلکہ پہلے سے زیادہ بدتر دشمن بن گیا)
تو جب بھارت سے جنگ بندی ہوسکتی ہے اس لیے کہ خون خرابہ نہ ہو تو ان سے بھی مذاکرات کرکے جنگ بندی کرلے ۔۔۔
کم ازکم شائد اتنا ہو کہ مذید خون نہیں بہے گا ، کچھ نہیں تو عام عوام اس دہشتگردی سے شائد وقتی طور محفوظ ہوجائے گی ۔۔۔۔
 

کاشفی

محفلین
کچھ لوگوں اور ان کے لیڈروں کے اعصاب پر عمران خان اس بُری طرح سوار ہے کہ رات کو ٹھیک سے سو بھی نہیں سکتے۔

اللہ ہی ہے جو ان کے حال پر رحم فرمائے۔
کچھ لوگ ہمارے لیڈر کا نام سن کر ہی لال پیلے پڑجاتے ہیں اور آئیں بائیں شائیں کرنے لگتے ہیں۔۔ ابھی میں نام لوں گا ان کو اور سب کی انگلیاں تعصب لکھنا شروع ہوجائیں گی۔۔
ہم کسی کو سوار نہیں کرتے۔۔لیکن جب کسی کے لیڈر یا طالبان کے خلاف کچھ بولتے ہیں تو طالبان سے ہمدردی کرنے والوں کی آنکھیں اور چہرہ لال ہوجاتا ہے اور پھر وہ اوٹ پٹانگ باتیں کرتے ہیں لڑی کو کسی اور طرف منتقل کرنے کے لیئے۔۔پتا نہیں لوگ کب دہشت گرد طالبان اور اس کے ہمدردوں سے ہمدردی کرنا چھوڑیں گے۔۔
 
ایم کیو ایم والے ان جماعتوں پر اعتراضات کرتے ہیں جو تحریک طالبان سے مذاکرات کے حامی ہیں ، حالانکہ خود ایم کیوایم تحریک طالبان جیسی دہشتگرد تنظیم ہے ۔۔
وہ مذہب کے نام پر لوگوں کو مارتے ہیں اور یہ لسانی بنیاد پر دہشتگردی کرتے ہیں
 

x boy

محفلین
یہ سب جو ہوا بہت ہی غلط ہوا ، چاہے نصرانی ہو، چاہے یہود ہو، چاہے مجوسی ہو، چاہے ھندو ہو، چاہے سکھ ہو ، چاہے قادیانی ہو، اگر یہ ہمارے ملک میں امن کے ساتھ رہ رہے ہیں تو ان کو بھی امن ملنا چاہے گورنمنٹ میں بھی اقلیت کی سنی جانی چاہے۔
یہی اسلامی تمدن کے شعائر ہیں۔
جیسا کہ اوپر ایک کالم میں چند حدیثوں سے واضح ہوا۔
انتہائی غلط ٹارگٹ کیا، اگر امریکہ دشمنی ہے تو امریکن فوجی کو مارنے افغانستان جائے ۔
خیر میں ان نصرانی پاکستانی قوم کے دکھ میں برابر شریک ہوں۔
میرے بھی دوتین کلاس فیلو نصرانی تھے ہم کھیلتے کھاتے پھرتے تھے کبھی ہم میں نااتفاقی نہیں ہوئی۔
 
دہشتی گردی کے معاملہ پہ کسی قسم کی سیاست سے گریز کرنا چاہئے اور سب کو مل کر اس مسئلے کا جامع حل نکالنا چاہئے خواہ وہ مسلل حالت جنگ کی حالت ہی کیوں نہ ہو۔اس مسئلے کو ٹاپ کی ترجیحات میں شامل کریں اور تمام وسائل بروئے کار لائیں جائیں اور دہشت گرووں کے ٹھکانوں پر بمبار حملے کرنے سے بھی گریز نہیں کرنا چاہئے۔
 
Top