علاقے، زبان، رنگ و نسل اور یہاں تک کہ مذہب سے بھی قطع نظر تمام مظلومِ عالم انسانی برادری کی لڑی میں پروئی ہوئی ایک قوم ہیں۔ ہر حساس پاکستانی دل اپنے پشتون بھائیوں بہنوں کے ساتھ ماورائے آئین و قانون روا رکھے جانے والے سلوک کو قابلِ نفرت و مذمت سمجھتا ہے۔ اُن کا اتحاد اور پرامن جدوجہد قابل قدر عمل ہے۔ ہمیں آج تک کی قانون کی کتابوں میں یہی پڑھایا جاتا ہے کہ کسی ایک بے گناہ کو سزا دینے کے مقابلے میں کئی کناہ گاروں کا سزا سے بچ جانا قابلِ قبول عمل ہے۔ زمینی حقائق مگر اس کے برعکس اور نہایت تلخ ہیں۔اکثر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ مملکتِ پاکستان کے مقتدر چہروں کا فقط رنگ ہی تبدیل ہوا ہے عوام سے متعلق ان کےمخاصمانہ اور استحصالی رویے نہیں بدلے۔ آئین اور قانون کی سربلندی تک حقیقی آزادی ایک خواب ہی رہے گی۔ خدا ہمارے عہد کے فرعونوں کو ہدایت دے یا ان کی ظلمت کو عہدِ نو کے اُجالوں میں غرق کردے۔ پاکستان زندہ باد، لاقانونیت مردہ باد۔
ہر پاکستانی کو یقیناً ان حالات کا دکھ ہے جن میں قبائلی علاقوں کے لوگ رہ رہے ہیں، لیکن اس بات کو تحریکی نعرہ سے آگے بڑھاناُ ہو گا۔
ممکنہ حل پہ قابلِ حل منصوبوں کی طرف بڑھنا ہو گا اور اس میں درپیش دشواریوں پہ بات کر نا ہو گی۔
۱- کیا حالات ایسے ہیں کہ فوجی چوکیوں کو ہٹا لیا جائے؟
۲- کیا طالبان کے دوبارہ منظم ہونے کا خطرہ دور ہو چکا ہے؟ جبکہ وہ افغانستان میں اب بھی بہت طاقت رکھتے ہیں۔
۳- قبائلی قوانین میں تبدیلی کیلئے کس سے بات چیت کی جائے؟ کون ان کی نمائندگی کرے گا؟ سیاسی جماعتیں؟ قبائلی عمائدین؟
۴- پی ۔ ٹی۔ ایم کے پلیٹ فارم سے جھوٹا پروپیگنڈا کیوں ہو رہا ہے؟ جیسے کہ جھوٹی وڈیوز کو سچ بنا کر پیش کرنا؟ یہ کہنا کہ فوج نہتے بچوں پہ فائرنگ کرتی ہے؟