پشتون تحفظ موومنٹ

پشتون تحفظ موومنٹ کی طرز پر بلوچ تحفظ ، سندھ تحفظ اور سرائیکی تحفظ بھی چلانا ہونگی۔ مہاجر تحفظ موومنٹ کو تقویت دینا ہوگی۔ شاید وردی کی دھشت گردی و کرپشن گردی سے نجات ملے
 
pic.asp

Daily Jang Epaper, Urdu Multimedia E-Newspaper of Pakistan with video footage - ejang.jang.com.pk
 
وہیں موجود رہنما عصمت شاہ جہان نے بتایا کہ ہمیں لگتا تھا کہ کسی وقت بھی کچھ ہو جائے گا۔

’یہ یہاں پر آئے اپنے بھاری ہتھیاروں کے ساتھ آئے۔ یہ کمرے میں گھسے اور انھوں نے علی وزیر کے سر پر پستول تانی اور کہا کہ چلیں۔۔ ہماری کوشش تھی کہ یہ اکیلے نہ جائیں کیونکہ یہاں ایسا ہوتا ہے اور جس کے خلاف ہم خود نکلے ہوئے ہیں۔۔۔ ان کا رویہ انتھائی تشدد آمیز تھا۔ انھیں گھسیٹ کر لے گئے۔ مجھے بندوق کے بٹ مارے، مجھے سیڑھیوں پر نیچے پھینکا، تھانے میں ہمارے ساتھ جو ہوا وہاں ایک ہی بات جاری تھی کہ ہم دہشت گرد ہیں۔ ایجنٹ ہیں۔ اپ پشتون تو یہی ہیں۔ پٹھان نے پورے ملک میں دہشت گردی پھیلائی ہے۔ انھوں نے ہمارے اعصاب توڑنے کی کوشش کی ۔۔ ہم سب کو اکیلے بلایا۔۔۔ وہاں انسداد دہشت گردی کا فل محکمہ اعلیٰ حکام موجود تھے، اور فوج بھی موجود تھی۔‘

پی ٹی ایم جلسہ: ’تحویل میں لیے گئے رہنما رہا‘
 
یہی حال رہا تو ایک ایم کیو ایم جیسی تنظیم پنجاب میں بھی بنے گی۔ کبھی نہ کبھی پنجابی کو بھی اپنے حقوق کیلئے متحد ہونا ہو گا، جن کو ہر طرف سے ہراس کا سامنا ہے۔
 

آوازِ دوست

محفلین
علاقے، زبان، رنگ و نسل اور یہاں تک کہ مذہب سے بھی قطع نظر تمام مظلومِ عالم انسانی برادری کی لڑی میں پروئی ہوئی ایک قوم ہیں۔ ہر حساس پاکستانی دل اپنے پشتون بھائیوں بہنوں کے ساتھ ماورائے آئین و قانون روا رکھے جانے والے سلوک کو قابلِ نفرت و مذمت سمجھتا ہے۔ اُن کا اتحاد اور پرامن جدوجہد قابل قدر عمل ہے۔ ہمیں آج تک کی قانون کی کتابوں میں یہی پڑھایا جاتا ہے کہ کسی ایک بے گناہ کو سزا دینے کے مقابلے میں کئی کناہ گاروں کا سزا سے بچ جانا قابلِ قبول عمل ہے۔ زمینی حقائق مگر اس کے برعکس اور نہایت تلخ ہیں۔اکثر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ مملکتِ پاکستان کے مقتدر چہروں کا فقط رنگ ہی تبدیل ہوا ہے عوام سے متعلق ان کےمخاصمانہ اور استحصالی رویے نہیں بدلے۔ آئین اور قانون کی سربلندی تک حقیقی آزادی ایک خواب ہی رہے گی۔ خدا ہمارے عہد کے فرعونوں کو ہدایت دے یا ان کی ظلمت کو عہدِ نو کے اُجالوں میں غرق کردے۔ پاکستان زندہ باد، لاقانونیت مردہ باد۔
 
علاقے، زبان، رنگ و نسل اور یہاں تک کہ مذہب سے بھی قطع نظر تمام مظلومِ عالم انسانی برادری کی لڑی میں پروئی ہوئی ایک قوم ہیں۔ ہر حساس پاکستانی دل اپنے پشتون بھائیوں بہنوں کے ساتھ ماورائے آئین و قانون روا رکھے جانے والے سلوک کو قابلِ نفرت و مذمت سمجھتا ہے۔ اُن کا اتحاد اور پرامن جدوجہد قابل قدر عمل ہے۔ ہمیں آج تک کی قانون کی کتابوں میں یہی پڑھایا جاتا ہے کہ کسی ایک بے گناہ کو سزا دینے کے مقابلے میں کئی کناہ گاروں کا سزا سے بچ جانا قابلِ قبول عمل ہے۔ زمینی حقائق مگر اس کے برعکس اور نہایت تلخ ہیں۔اکثر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ مملکتِ پاکستان کے مقتدر چہروں کا فقط رنگ ہی تبدیل ہوا ہے عوام سے متعلق ان کےمخاصمانہ اور استحصالی رویے نہیں بدلے۔ آئین اور قانون کی سربلندی تک حقیقی آزادی ایک خواب ہی رہے گی۔ خدا ہمارے عہد کے فرعونوں کو ہدایت دے یا ان کی ظلمت کو عہدِ نو کے اُجالوں میں غرق کردے۔ پاکستان زندہ باد، لاقانونیت مردہ باد۔
ہر پاکستانی کو یقیناً ان حالات کا دکھ ہے جن میں قبائلی علاقوں کے لوگ رہ رہے ہیں، لیکن اس بات کو تحریکی نعرہ سے آگے بڑھاناُ ہو گا۔
ممکنہ حل پہ قابلِ حل منصوبوں کی طرف بڑھنا ہو گا اور اس میں درپیش دشواریوں پہ بات کر نا ہو گی۔

۱- کیا حالات ایسے ہیں کہ فوجی چوکیوں کو ہٹا لیا جائے؟
۲- کیا طالبان کے دوبارہ منظم ہونے کا خطرہ دور ہو چکا ہے؟ جبکہ وہ افغانستان میں اب بھی بہت طاقت رکھتے ہیں۔
۳- قبائلی قوانین میں تبدیلی کیلئے کس سے بات چیت کی جائے؟ کون ان کی نمائندگی کرے گا؟ سیاسی جماعتیں؟ قبائلی عمائدین؟
۴- پی ۔ ٹی۔ ایم کے پلیٹ فارم سے جھوٹا پروپیگنڈا کیوں ہو رہا ہے؟ جیسے کہ جھوٹی وڈیوز کو سچ بنا کر پیش کرنا؟ یہ کہنا کہ فوج نہتے بچوں پہ فائرنگ کرتی ہے؟
 
زمینی حقائق مگر اس کے برعکس اور نہایت تلخ ہیں۔اکثر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ مملکتِ پاکستان کے مقتدر چہروں کا فقط رنگ ہی تبدیل ہوا ہے عوام سے متعلق ان کےمخاصمانہ اور استحصالی رویے نہیں بدلے۔ آئین اور قانون کی سربلندی تک حقیقی آزادی ایک خواب ہی رہے گی۔ خدا ہمارے عہد کے فرعونوں کو ہدایت دے یا ان کی ظلمت کو عہدِ نو کے اُجالوں میں غرق کردے۔ پاکستان زندہ باد، لاقانونیت مردہ باد۔
یہی بات دن پہلے میں عرض کر رہا تھا کہ گورے آقاؤں کی جگہ براؤن آقاؤں نے لے لی ہے۔ انگریز کی تربیت شدہ اسٹیبلشمنٹ کا نظام آج بھی جاری ہے، جب تک یہ نظام نہیں بدلے گا ظالمانہ رویے نہیں بدلیں گے ۔ اس بات کا ادراک کرکے پوری قوم کو اس رویے کے خلاف متحد ہونا ہوگا۔
 

آوازِ دوست

محفلین
ہر پاکستانی کو یقیناً ان حالات کا دکھ ہے جن میں قبائلی علاقوں کے لوگ رہ رہے ہیں، لیکن اس بات کو تحریکی نعرہ سے آگے بڑھاناُ ہو گا۔
ممکنہ حل پہ قابلِ حل منصوبوں کی طرف بڑھنا ہو گا اور اس میں درپیش دشواریوں پہ بات کر نا ہو گی۔

۱- کیا حالات ایسے ہیں کہ فوجی چوکیوں کو ہٹا لیا جائے؟
۲- کیا طالبان کے دوبارہ منظم ہونے کا خطرہ دور ہو چکا ہے؟ جبکہ وہ افغانستان میں اب بھی بہت طاقت رکھتے ہیں۔
۳- قبائلی قوانین میں تبدیلی کیلئے کس سے بات چیت کی جائے؟ کون ان کی نمائندگی کرے گا؟ سیاسی جماعتیں؟ قبائلی عمائدین؟
۴- پی ۔ ٹی۔ ایم کے پلیٹ فارم سے جھوٹا پروپیگنڈا کیوں ہو رہا ہے؟ جیسے کہ جھوٹی وڈیوز کو سچ بنا کر پیش کرنا؟ یہ کہنا کہ فوج نہتے بچوں پہ فائرنگ کرتی ہے؟
برادر، پشتون تحریک کا محرک و مقصد جو میری ناقص فہم میں آسکا وہ تو یہ ہے کہ اُن کے پیاروں کو ماورائے آئین و قانون لاپتہ کردینے کا اور اغوا شدگان کا جعلی مقابلوں میں کیڑوں مکوڑوں کی طرح مار دینے کا سلسہ تھم سکے۔ وہ فیکٹ فائنڈنگ اور ری کنسیلئیشن کی بات کر رہے ہیں۔ فوجی چوکیوں کی ضرورت ناگزیر ہے تو ضرور رہیں مگر اُن سے منسلک تکلیف و آزار کا سدباب کردیا جائے۔ سرحدوں پر لگنے والی باڑ سے بیرونی مداخلت کا خطرہ کم ہونا چاہیے۔ سپریم کورٹ کی جوریسڈکشن کی فاٹا تک توسیع کا مفہوم تو میرے نزدیک یہی ہے کہ وہاں کے عوام کی بالآخر قانون و انصاف کے دلالوں سے جان چھوٹ جائے گی۔
جھوٹ کسی بھی تحریک کا عوام کی نظر میں اعتماد زائل کر دیتا ہے۔ اگر تحریک کے لوگ بقول آپ کے کسی جھوٹے پروپیگنڈے میں ملوث ہورہے ہیں تو اس کے ثبوت جواب آں غزل کے طور پر عوام کے سامنے لائے جانے چاہییں یا اُن کا فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کے قیام کا مطالبہ مان کر ہی دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دینا چاہیے۔
لیکن مجھے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ بنیادی مسائل اور مطالبات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اُنہیں جھوٹے اور کم عقل ثابت کرنے کی کوشش اس بات کی غماز ہے کہ طاقتور مارے بھی اور رونے بھی نہ دے۔ اللّہ کریم ہمیں آسانیاں دے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف بخشے۔
 

فرقان احمد

محفلین
اِس تحریک کی اُٹھان ایسی نہیں ہے کہ ریاستی ادارے اِسے یکسر نظرانداز کر دیں۔ احساسِ محرومی کو دُور کرنے کی اشد ضرورت ہے تاہم اس تحریک کے کرتا دھرتا افراد کو باغی عناصر سے دُوررہنا ہو گا۔ اس تحریک میں یقینی طور پر غیر ملکی قوتوں کو خاص دلچسپی ہو گی۔ دراصل، قصور تو سراسر ہمارے پالیسی سازوں کا ہی ہے۔
 

یاز

محفلین
یہود و ہنود کے ایجنٹ اور بیرونی سازشیں وغیرہ سے ہٹ کر اگر سمجھنا ہو کہ ایسی تحاریک کیوں اٹھتی ہیں تو گزارش ہے کہ ذیلی ویڈیو میں اوم پوری کے ڈائیلاگ ضرور سنئے اور غور کیجئے۔
یہ گلزار کی فلم ماچس کا ایک کلپ ہے جو کہ 1996 میں ریلیز ہوئی تھی۔
ہمیں اس کے یہ جملے بہت ہی برمحل لگتے ہیں: "دیکھو جب کسی کے زیادتی ہوتی ہے اور ہوتی ہی چلی جاتی ہے۔ اور اسے کہیں سے انصاف ملتا دکھائی نہیں دیتا تو وہ اپنی طرح کے اور لوگوں کو ڈھونڈتا ہے۔ کبھی ذات، کبھی دھرم کے نام پر، کبھی شہر اور کبھی محلے کے نام پر۔ نام جو بھی رکھ لو، اس کی لڑائی رہتی اسی ناانصافی کے خلاف ہے"۔
 
اِس تحریک کی اُٹھان ایسی نہیں ہے کہ ریاستی ادارے اِسے یکسر نظرانداز کر دیں۔ احساسِ محرومی کو دُور کرنے کی اشد ضرورت ہے تاہم اس تحریک کے کرتا دھرتا افراد کو باغی عناصر سے دُوررہنا ہو گا۔ اس تحریک میں یقینی طور پر غیر ملکی قوتوں کو خاص دلچسپی ہو گی۔ دراصل، قصور تو سراسر ہمارے پالیسی سازوں کا ہی ہے۔
اسٹیبلشمنٹ نے اپنے نکتہ نظر سے اختلاف کرنے والوں کو تو غدار تک کے الزامات سے نواز رکھا ہے۔
 
ان لوگوں کو سننا چاہئے، یہ بات مان لینی چاہئے کہ ماضی میں قبائیلیوں کے ساتھ ظلم ہوا ہے، یہ ہمارے اپنے ہی بھائی ہیں، اسٹیبلشمنٹ اور قبائیلی سردار دونوں ساتھ مل کر بیٹھیں اپنے اپنے ظلم کا اعتراف کریں اور اس پر معافی مانگیں۔ یہی سمجھداری ہے۔
 

سید ذیشان

محفلین
پہلی بار کسی کے بارے میں ایسا صریح اعتراف کیا گیا ہے۔

ازراہِ تفنن :)
بچہ اس پیرائے میں تنقیص کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ بطرز "کل کا بچہ" یا پھر "بچہ لگا ہے"۔

بینظیر بھی جب پہلی دفعہ منتخب ہوئی تو جرنیل کہتے تھے کہ یہ کل کی بچی اب ہم پر حکومت کرے گی. اور باقی کی تاریخ تو سب کو معلوم ہے ☺
 

محمد وارث

لائبریرین
بچہ اس پیرائے میں تنقیص کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ بطرز "کل کا بچہ" یا پھر "بچہ لگا ہے"۔

بینظیر بھی جب پہلی دفعہ منتخب ہوئی تو جرنیل کہتے تھے کہ یہ کل کی بچی اب ہم پر حکومت کرے گی. اور باقی کی تاریخ تو سب کو معلوم ہے ☺
نہرو اور پھر شاستری کی موت کے بعد جب اندرا گاندھی وزیرِ اعظم کے امیدوار کے طور پر سامنے آئی تو کانگریس کے بزرجمہر جنہوں نے آزادی کی جنگ جیتی تھی اور اس وقت "سنڈیکیٹ" کہلواتے تھے انہوں نے بھی اندرا کو "بچی" اور "گڑیا" کے القاب سے نوازا تھا اور پھر "گڑیا رانی" کو دنیا نے دیکھا! :)
 
Top