ساجداقبال
محفلین
اس نئی فلمی قسم کی لڑائی میں خوش قسمتی سے وہ شامل ہیں جو دوسروں کو لڑانے اور پھر اس کی رپورٹنگ کرنے کا کام کرتے ہیں۔ ڈاکٹر شاہد نے بھی آج آستینیں چڑھا لی ہیں، تو فلم انجوائے کرتے رہیں اور سب پڑھ لیں!!!
شکریہ انصار عباسی !,,,,میرے مطابق … ڈاکٹر شاہد مسعود
ہماری صحافت گزرے چند برسوں کے دوران پہلے الیکٹرانک میڈیا اور پھر مختلف ویب سائٹس یا blogsکے نمودار ہونے کے بعد تیزی سے اُن بتوں کے پاش پاش ہونے کا سبب بنی ہے جو برسہا برس سے مختلف گروہوں میں تقسیم کبھی آزادی صحافت اور کبھی زرد صحافت کے نام پر ہر حکومت سے مفادات حاصل کرتے، کبھی اس کے گیت گا کر طبلہ نوازی کرتے اور کبھی اس پر بے جا کیچڑ اُچھال کر بلیک میل ، ایک انتہائی طاقتور مافیا کا روپ دھار چکے تھے۔ اپنے فن میں اس قدر طاق کہ اُن کا ہمیشہ دعویٰ رہا کہ” ہمارا نشانہ کبھی خطا نہیں جاتا۔ اپنا نقطہ نظر اچانک تبدیل کرکے لوگوں میں فروخت کرتے رہنا بھی آخر ایک مہارت ہی تو ہے۔
کہاں کا خیر، کیسی حرمتِ لفظ و معانی
میں دُنیا میں ہوں اور اسبابِ دُنیا چاہتا ہوں
لیکن الیکٹرانک میڈیا پر اپنے چہرے دکھانے اور لڑکھڑاتی زبانوں سے جھوٹ بیان کرنے اور پھر ہر روز پینترا بدلنے نے بہت سی دکانیں بند کردیں۔ عوام نے پہلی بار فیصلہ کیا کہ وہ کن تجزیہ کاروں پر زیادہ اعتماد کرتے ، حالاتِ حاضرہ کے پروگراموں میں کن مہمان شخصیات کے خیالات عالمی اور داخلی سیاست پر سننے کے خواہاں ہیں۔ یہ بھی رفتہ رفتہ طے ہوتا گیا کہ خواہ آپ کسی بھی مکتبہ فکر سے ہوں، عوام اب آپ کو تیزی سے قلابازیاں لگاتا دیکھنے کا حق دینے کو تیار نہیں۔ گزرے آٹھ نو برسوں میں افغانستان، عراق، لبنان، پاک بھارت تنازع سے لیکر ملکی سیاسی بحرانوں، انتخابات ، جلا وطن سیاست دانوں کی واپسی، عدلیہ آزادی کی تحریک اور ایمرجنسی کے نفاذ جیسے واقعات نے یہ تاثر مزید قوی تر کردیئے اور پھر الیکٹرانک میڈیا میں بھی جب خوشامدی کاسہ لیسوں کو پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تو عوام نے کثرتِ رائے سے اُنہیں مسترد کرکے ملک کو اُس جدید دور کی جانب دھکیل دیا جہاں آج سیاست دانوں اور حکمرانوں سے کہیں زیادہ اعتماد اُنہیں اپنے اِس نوزائیدہ ذرائع ابلاغ پرہے اور کبھی کبھی میں حیران ہوتا ہوں کہ آٹھ نو برس پہلے میں جن محترم اخبارات کے ایڈیٹر صاحبان کو بطور مہمان تجزیہ کار اپنے پروگراموں میں مدعو کیا کرتا اور وہ جواباً میری تعریفوں کے گُن گایا کرتے تھے، اب وہ خود اپنا قلم چھوڑ کر میری طرح حالات حاضرہ کے پروگراموں کی میزبانی کرتے اکثر محفلوں میں مجھے کوستے نظر آتے ہیں۔ بزرگ ہیں، اس لئے میں فطرتاً احترام کرتا خاموش ہوکر کنارہ کرلیا کرتا ہوں کہ بے مقصد تصادم کومیں محض وقت کا ضیاع سمجھتا ہوں اور یوں بھی میرے مزاج کے خلاف ہے!
اس موضوع پر لکھنے کیلئے مجھے میرے دوست انصار عباسی نے حکمرانوں کے عطا کردہ پلاٹ اُنہیں واپس لوٹا کر اور پھر چھوٹے بھائیوں کی طرح عزیز محمد احمد نورانی نے گزرے برسوں میں اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والوں پر تحریر کی کوشش نے مجبور کیا ہے اور اطلاع یہ ہے کہ ہزاروں کی تعداد پر مشتمل ایک غیظ و غضب کا شکار لشکر نہ صرف انصار عباسی بلکہ اس ادارے کے پیچھے بھی ہاتھ دھو کر پڑ گیا ہے کہ مفادات پر ایسی کاری ضرب نے کئی معتبر چہروں پر سے جو صبح و شام قوم کو ”اصول“ کا لیکچر سناتے ہیں، نقاب نوچ لی ہے اور اگر مختلف اخبارات یا صحافی دوست ، خود یا اپنے ساتھیوں کے اس دلدل میں دھنسے ہونے کے باعث اس پر کچھ لکھنے یا کہنے سے ہچکچاتے ہیں تو پھر pkpolitics.com جیسی ویب سائٹ ، جنہیں تعلیم یافتہ نوجوان معاشرے میں شعور بیدار کرنے کیلئے میدان میں لا چکے ہیں، عَلم اُٹھا کر اس جہاد میں ساتھ دینے کود پڑتی ہیں! برسوں پہلے جب جنرل مشرف کے ابتدائی دور میں شاہین صہبائی صاحب نے ملک کے حساس اداروں کے سامنے اس بنیاد پر ہتھیار ڈالنے سے انکار کردیا تھا کہ وہ حق پر تھے اور پھر جلاوطنی اختیار کرنے کے بعد اُنہوں نے ملکی تاریخ میں پہلی بار ایک انتہائی مقبول ویب سائٹ کا آغاز کرکے اپنے خیالات کے اظہار کا رستہ اپنایا تھا تو مجھے یاد ہے کہ انتہائی مشکل دور میں تب پابندیوں اور مصائب کی زد میں آکر وہی ویب سائٹ میری مدد کا سامان فراہم کیا کرتی تھی! تب میں شاہین صہبائی کے لب و لہجے میں وہی طاقت محسوس کیا کرتا تھا جو اب مجھے انصار عباسی کی گفتگو میں محسوس ہوتی ہے اور جب کل میں نے اُس سے کہا کہ ”اپنی برادری سے لڑکر کیوں مزید مصیبتیں کھڑی کررہے ہو؟“ تو اُس کا جواب تھا ”میں اُصول کی بات کررہا ہوں ڈاکٹر صاحب!! میں اِن سب کا سامنا کروں گا مجھے یہاں اپنی کمزوری کا اعتراف ہے! چند ماہ پہلے جب میں نے انتہائی غیر معمولی حالات اور اُن مشکلات سے پریشان ہوکر ، جو ایک خلیجی ریاست سے اپنا پروگرام پیش کرنے کے باعث بار بار میرے اور کہیں بڑھ کر میرے ادارے کیلئے مصائب کا سبب بن رہی تھیِں، وقتی طور پر ایک سرکاری ادارے میں قدم رکھ کر ، ہتھیار کچھ دیر کو ایک طرف رکھے تو یہی شاہین صہبائی صاحب، انصار عباسی اور عرفان صدیقی صاحب (جنہیں میں اکثر اپنا اُستاد بھی کہتا ہوں) مجھے ایسا کرنے سے روکتے رہے! ہمت دلاتے رہے، سمجھاتے رہے کہ یوں نہ کرو! لیکن میں شاید جنرل (ر) جمشید گلزار کیانی مرحوم کی گفتگو نشر ہونے کے بعد، مختلف جانب سے آتے پیغامات سے اس قدر پریشان ہو چکا تھا کہ اس حقیقت کے باوجود کہ بے پناہ نقصان اُٹھاتا ادارہ مکمل طور پر میری پشت پر کھڑا ہے، میں نے رخصت طلب کی لیکن اس وعدے کے ساتھ کہ میں جلد حالات کو کچھ بہتر پاکر واپس لوٹوں گا اور پھر … اللہ نے مجھے اپنے وعدے کی پاسبانی کی ہمت اور موقع فراہم کیا! الحمدللہ ! گزرے برسوں میں کن صحافیوں کو کتنے پلاٹ عطا ہوئے؟ کیا فہرست عوام کے سامنے آنا ضروری نہیں! یقینا کئی دوست انتہائی مشکلات کا شکار برسہا برس سے اس میدان میں اپنے فرائض سر انجام دیتے اِن مراعات کے حقدار ہیں لیکن میں بڑے مگر مچھوں اور اُن اکابرین کی رونمائی میں دلچسپی رکھتا ہوں جنہوں نے سورج مکھی کے پھولوں کی طرح ہر چڑھتے سورج کی طرف اپنا منہ پھیر کر دربار میں نورتن بننے کے فرائض سر انجام دیئے! آغاز انصار عباسی نے کیا ہے اور بحث آگے بڑھا تا میں خود کو عوام کے سامنے اس حلفیہ بیان کے ساتھ پیش کررہا ہوں کہ” آج بھی میں ایک کرائے کے مکان میں قیام پذیر ہوں! پاکستان سمیت دُنیا کے کسی بھی حصے میں میرے یا میرے اہل خانہ کے نام پر کوئی پلاٹ یا جائیداد نہیں ۔
پاکستان ٹیلی ویژن کارپوریشن کے چیئرمین اور منیجنگ ڈائریکٹر کے طور پر جو آڈٹ رپورٹ میں نے وہاں اپنے مختصر قیام کے دوران تیار کی تھی جس کی نقول زرداری صاحب، گیلانی صاحب، قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان اور سینئر صحافی اور تجزیہ کار محمد صالح ظافر صاحب کے پاس موجود ہے اور جس میں اُن بڑے صحافی حضرات کے نام پر قائم اداروں کے نام موجود ہیں جو اس قومی ادارے کے اربوں روپے کے نادہندگان ہیں، اُن سے پلاٹوں کے علاوہ مفادات کے دوسرے طریقوں کا بھی اندازہ ہوسکتا ہے!
ارباب اختیار کو اندازہ تھا کہ میں جلد واپس اپنی اصل جگہ لوٹنے کو پَر تول رہا ہوں اس لئے کردار کشی کی ایک بھر پور مہم چلانے کے فرائض بھی بدقسمتی سے میرے ہی چند ایسے دوستوں کو سونپے گئے جن پر کبھی ”پابندی“ عائد نہیں ہوئی! مشرف دور کی بد ترین ایمرجنسی میں بھی صرف اُنہیں ہی لب کشائی کی اجازت تھی! کوئی اپنی پچیس سالہ صحافت کے بوجھ تلے مجھے ملیا میٹ کرنے پر آمادہ ہو گیا اور کسی نے میرے پیشہ ورانہ کردار سے ہٹ کر میری ذاتی زندگی سے متعلق وہ عجب گفتگو کی کہ میں حیران یہ بھی جواباً نہ کہہ سکا کہ” آپ وہی ہیں نا جس نے ایک سابق وزیراعلیٰ پنجاب کو دوروز تک بٹھا کر انٹرویو کی تیاری کے عوض۔۔ “۔ کبھی آئی ایس آئی اور کبھی سی آئی اے کا ایجنٹ تو کہا جاتا رہا لیکن کسی کرپشن کا الزام لگانے کی موصوف کو بھی ہمت نہ ہوسکی!
اور پھر چند روز بعد زرداری صاحب کے ایک قریبی دوست نے (یہ خبر روزنامہ جنگ اور دی نیوز میں شائع ہو چکی ہے) آکر خراماں خراماں یہ خبر سنائی کہ ”آپ کی کامیاب کردار کشی کی مہم کے بعد اگلے کچھ عرصے میں انصار عباسی اور شاہین صہبائی کی باری ہے اور مجھے تب سے یقین تھا کہ اس بار بھی ”برادرانِ یوسف“ میں سے ہی کوئی نہ کوئی یہ فریضہ سر انجام دینے اپنی خدمات پیش کرے گا!“ اس شعبے سے وابستہ حضرات کے گو شوارے بھی عوام کے سامنے آنے شاید ضروری ہیں۔ اپنے ساتھیوں کی پیروی کرتا میں اس کیلئے تیار ہوں! Ptvکی سربراہی کے دوران میری تنخواہ جو (8 لاکھ کے لگ بھگ تھی) اُس پر احتجاج ہوا ۔ یہ تنخواہ مجھ سے پہلے اس عہدے پر فائز شخصیت کی بھی تھی اور شاید بعد میں آنے والے کی بھی !! میں اس قدر زیادہ تنخواہ اور حیران کن مراعات کے خلاف ہوں اور اس میں کمی کی سفارش پیش کر چکا ہوں! اورحسب وعدہ اگلے کچھ دنوں میں وہاں سے حاصل کی گئی تنخواہ (جو ٹیکس کاٹ کر کچھ 3 لاکھ ماہانہ کے لگ بھگ بنتی تھی) اُسے لوٹانے جا رہا ہوں! میرا ارادہ تھا کہ اپنے قیام کے دوران وہاں سے تنخواہ نہ لوں لیکن پھر چند دوستوں نے مشورہ دیا کہ ”اگر تم بِلا تنخواہ کام کرو گے تو تمہارے ”چاہنے والے“ یہ مہم چلادیں گے کہ تم ادارے میں کرپشن کررہے ہو اور اسی لئے تنخواہ سے دستبردار ہوئے ہو“! بادلِ ناخواستہ امانتاً اس لئے وہاں سے رقم لی جو واپس کرنے کا وعدہ ہے۔ چند صحافی حضرات میں جدید گاڑیاں تقسیم کی گئیں! کچھ کو صدر اور وزیر اعظم کے غیر ملکی دوروں میں شامل کرکے سرکاری خرچ پر نوازا جارہا ہے! آج بھی وزارتِ اطلاعات و نشریات کا خفیہ فنڈ کروڑوں روپے کے ساتھ موجود ہے جس کے بارے میں حکومت کا کہنا ہے کہ اس کا ”آڈٹ“ لازم نہیں!! معتبر شخصیات اس سے فیض یاب ہوتی فہرست میں وجود رکھتی ہیں۔ بچوں کے اسکول کالجوں کی فیسوں سے لیکر اُن کی شادی بیاہ کے اخراجات، گھروں کے فرنیچر، اسپتالوں کے اخراجات، دعوتیں اور پھر شام کی محافل میں رقص و سرور سے اگلے مراحل تک اس ملک کے اہلِ فکر و دانش کا ایک طبقہ سرکاری سرپرستی میں آج بھی ملوث ہے!
میں شاید خاموش ہی رہتاکہ جیسا پہلے بیان کیا کہ میں مزاجاً تصادم سے گریز کرتا ہوں لیکن انصار عباسی کے اس فقرے نے مجھے حوصلہ دیا کہ ”میں اُصول کی بات کررہا ہوں ڈاکٹر صاحب! اِن سب کا سامنا کرونگا“۔ شکریہ انصار عباسی! کہ آپ کے ساتھ کہیں پیچھے اب میں بھی کھڑا ہوں!!