پلکوں کی محبت کا خلل جائے تو جانیں - سید محمد اسمعیل متخلص بہ منیر

کاشفی

محفلین
غزل
(سید محمد اسمعیل متخلص بہ منیر )

پلکوں کی محبت کا خلل جائے تو جانیں
یہ پھانس کلیجے سے نکل جائے تو جانیں

ہر چند کہ آوارہ بہت ہے دلِ وحشی
باہر ترے کوچے سے نکل جائے تو جانیں

دل کے تو خریدار نظر آتے ہیں لاکھوں
چُٹکی سے کلیجہ کوئی مَل جائے تو جانیں

سوبار بلائے شبِ فرقت سے بچے ہیں
اب کی اگر آئی ہوئی ٹل جائے تو جانیں

آنے دو منیر آئے اگر فصلِ بہاری
ہاں نخلِ تمنا کبھی پھل جائے تو جانیں

تعارفِ شاعر:
سید محمد اسمعیل متخلص بہ مُنیر ، باپ کا نام سید احمد حسین متخلص بہ شاہ تھا۔ شکوہ آباد مولد تھا۔ لیکن لکھنؤ ، فرخ آباد میں زائد تر رہنے کا اتفاق ہوا - کلبِ علی خان کے وقت میں رام پور کی بھی سیر کی تھی۔ بہت ذہین اور پُرگو شاعر تھے۔ ان کی غزلوں میں‌ مطلع بہت ہوتے تھے۔ اور اشعار میں آمد کی شان ہوتی تھی۔ کہتے چلے جاتے تھے۔ ہمیشہ مصائب میں مبتلا رہے اسلیئے اپنے حسب حال جو کچھ لکھتے تھے بہتر لکھتے تھے۔ بہر حال اُستادوں میں انکا شمار ضرور ہے۔

کیا فقط میں ہی ہوں جفا کے لیئے
مُنہ نہ کھلوائیے خدا کے لیئے

صندلِ بوے ِ یار مفت نہ مانگ
درد پیدا کر اس دوا کے لیئے

کربلا میں منیر کو مولا
جلد بلوائیے خدا کے لیئے
 

فاتح

لائبریرین
ہر چند کہ آوارہ بہت ہے دلِ وحشی
باہر ترے کوچے سے نکل جائے تو جانیں
سبحان اللہ کیا خوبصورت انتخاب ہے۔ بہت خوب۔
 
Top