پلیز میری مدد کیجیے -جاوید چوہدری

جاوید چوہدری صاحب کے اس کالم کا آخری جملہ ،
آپ میری رہنمائی فرمائیں‘ میں محب وطن اور اچھا مسلمان کیسے بن سکتا ہوں‘ مجھے جان بچانے کے لیے حب الوطنی اور مسلمانی دونوں کے سر ٹیفکیٹ درکارہیں‘ میں یہ سر ٹیفکیٹ کس سے حاصل کر سکتا ہوں‘ پلیز میری مدد کریں۔؟
اس کا کیا جواب ہو سکتا ہے ؟ ؟
عوام کے شعور کی سطح کی پستی ؟
تعلیمی نظام کی پستی اور بربادی؟؟
نام نہاد مذہبی راہنماوں اور حکمرانوں کی نا اہلی اور بے عملی ؟؟
میرے خیال میں تو اس وقت ایک ہی بات ہے کہ تعلیمی نظام کی بربادی اس کا ایک بڑا سبب ہے جس کے نتیجے میں عوامی شعور بہت پست ہوتا چلا گیا -
تعلیمی نظام کو برباد کس نے کیا اور کب اس کی ایک وجہ کی جھلک مروجہ نظام تعلیم...........دعوت فکر میں دیکھی جا سکتی ہے
ویسے مجھے امید ہے کہ جاوید چوہدری صاحب اپنے اگلے کسی کالم میں اس کا جواب خود ہی دے دیں گے


ربط
میں کل ایک مولانا کے پاس چلا گیا‘ مولانا ملک کے نامور عالم دین ہیں‘ یہ درجنوں کتابوں کے مصنف ہیں‘ یہ اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلز پر بھی اسلام کے بارے میں لیکچر دیتے ہیں اور یہ عالمی فورمز پر بھی اشاعت اسلام کا کام کرتے ہیں‘ میں ان کے پاس حاضر ہوا اور ان سے عرض کیا ’’ مجھے آپ کی مدد چاہیے‘‘ مولانا نے مسکرا کر کہا ’’فرمائیے‘ میں حاضر ہوں‘‘ میں نے عرض کیا’’ مولانا میں محب وطن اور اچھا مسلمان بننا چاہتا ہوں‘ آپ میری رہنمائی فرمائیے‘‘ مولانا نے حیرت سے میری طرف دیکھا اور فرمایا ’’ میں آپ کی بات نہیں سمجھا‘‘ میں نے عرض کیا ’’جناب میں آپ کی سہولت کے لیے حب الوطنی اور مسلمانی دونوں کو الگ الگ کر دیتا ہوں‘ میں محب وطن پاکستانی کیسے بن سکتا ہوں‘‘۔
مولانا کی حیرت میں اضافہ ہو گیا اور انھوں نے فرمایا ’’ مجھے واقعی آپ کے سوال کی سمجھ نہیں آئی‘‘ میں نے عرض کیا ’’حضور میرے پاس پاکستان کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ ہے‘ میں نے آج تک پاکستان کے سوا کسی ملک کی امیگریشن کے بارے میں نہیں سوچا‘ دنیا کے کسی کونے میں میری کوئی پراپرٹی‘ کوئی بینک اکائونٹ نہیں‘ میں ٹاٹ اسکولوں میں پڑھا ہوں‘ میں کالج تک صبح کی اسمبلی میں شریک ہوتا رہا‘ دن کا آغاز تلاوت‘ لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری اور قومی ترانے سے کرتا رہا‘ آج بھی شلوار قمیض اور ویسٹ کوٹ میرا پسندیدہ لباس ہے‘ میں آج بھی لسی پیتا ہوں‘ میری ساری تعلیم دیسی اور پاکستانی ہے’’میں اک دونی دونی‘ دو دونی چار ہوں‘‘ میں نے کسی بچے کو غیر ملکی تعلیم نہیں دلائی‘ میں نے پوری دنیا گھوم کر دیکھی مگر میں اس اپریل (2014ء) تک بھارت نہیں گیا‘ فوج کا پوری زندگی احترام کیا۔
کالج میں نیم فوجی ٹریننگ لی‘ چندے دیے‘ اردو پڑھی‘ اردو لکھی اور ہمیشہ اردو اور پنجابی بولی‘ میں صرف انگریزی کتابیں پڑھتا ہوں‘ میں 1993ء سے ٹیکس دے رہا ہوں‘ 1997ء سے باقاعدہ ٹیکس ریٹرن جمع کرواتا ہوں‘ آج بھی ملک کی تمام بڑی لیڈر شپ سے زیادہ ٹیکس دیتا ہوں‘ میرے پاس کوئی ایسی چیز‘ کوئی ایسا اثاثہ نہیں جو میں نے ڈکلیئر نہ کیا ہو‘ میرے پاس لاکر تک نہیں‘ ہمیشہ ووٹ دیا‘ ہمیشہ وقت پر بل جمع کرواتا ہوں‘ میں ٹریفک کے سگنلز پر رکتا ہوں‘ قطار میں کھڑا ہوتا ہوں‘ کوئی چیز فٹ پاتھ‘ سڑک اور گلی میں نہیں پھینکتا‘ سیلف میڈ انسان ہوں‘ آج تک دن رات کام کیا‘ سولہ سترہ گھنٹے محنت کرتا ہوں‘ وقت ضایع نہیں کرتا‘ دس بیس پچاس لوگوں کو روزگار فراہم کر رہا ہوں‘ زندگی میں کسی سے فراڈ نہیں کیا۔
کسی کا حق نہیں مارا‘ قانون نہیں توڑا‘ میرے خلاف کبھی کوئی ایف آئی آر درج نہیں ہوئی‘ سڑک پر چالان ہوا تو ادا کیا‘ ملک میں مارشل لاء نہیں لگایا‘ آئین نہیں توڑا‘ آئین میں کوئی آٹھویں‘ دسویں‘ بارہویں اور اٹھارہویں ترمیم نہیں کی‘ کسی کے ساتھ معاہدہ کر کے جلاوطنی اختیار نہیں کی‘ میرے خلاف آرٹیکل سکس کی کارروائی نہیں ہوئی‘ میں نے کبھی واجپائی کو پاکستان آنے کی دعوت نہیں دی اور نہ ہی جھک کر اسے کبھی سلام کیا‘ گیس پر جنریٹر تک چلانے کی غلطی نہیں کی‘ بینک اکائونٹس ہمیشہ سیدھے رکھے ہیں‘ پیسے پیسے کا حساب رکھا۔
کسی این جی او سے امداد نہیں لی‘ ملک سے باہر بھی گیا تو اپنا ٹکٹ خود خریدا اور بورڈنگ پاس تک سنبھال کر رکھے اور دس روپے کی چیز خریدتا ہوں تو اس کی رسید لیتا ہوں لیکن لوگوں کو اس کے باوجود میری حب الوطنی پر شک ہے‘ لوگ مجھے کسی بھی وقت غدار قرار دے دیتے ہیں‘ میں آپ کے پاس اس لیے حاضر ہوں‘آپ میری رہنمائی کریں‘ میں کس طرح محب وطن بن سکتا ہوں‘ میں کس طرح لوگوں کو اپنی حب الوطنی کا یقین دلاسکتا ہوں‘‘ مولانا کی ہنسی نکل گئی‘ وہ غور سے میری طرف دیکھنے لگے۔
میں نے عرض کیا ’’آپ ایمان اور مسلمانی کی حالت بھی ملاحظہ کیجیے‘ میں پیدائشی مسلمان ہوں‘ میرے والد نے پیدا ہوتے ہی میرے کان میں اذان دلوائی‘ میں کلمہ گو ہوں‘ نماز پڑھتا ہوں‘ قرآن مجید ترجمے کے ساتھ پڑھتا ہوں‘ میں نے کبھی کعبہ کی سمت پائوں سیدھے نہیں کیے‘ میں مغرب کی طرف پشت نہیں ہونے دیتا‘ میں نے آپ سے زیادہ سیرت کی کتابیں پڑھی ہیں‘ نبی اکرمؐ کی زیارت نصیب ہوئی‘ حج کیا‘ عمرے کیے اور ہر بارمسجد نبویؐ کے متبرک ترین ستونوں کے ساتھ سجدے کی سعادت نصیب ہوئی‘ وقت کے درجنوں اولیاء کرام کی صحبت نصیب ہوئی‘ صحابہ کرامؓ کے مزارات پر حاضری دی‘ بیس برسوں سے تسبیحات اور وظائف کر رہا ہوں‘ اللہ کے کرم سے ذکر میں کبھی کوتاہی نہیں آئی‘ اللہ ہر مشکل سے بال کی طرح نکال لیتا ہے۔
یہ برائی سے بچا لیتا ہے‘ مسائل آنے سے قبل اسباب پیدا کر دیتا ہے‘ میں نے زندگی میں کبھی کم نہیں تولا‘ کبھی ملاوٹ نہیں کی‘ وعدہ نبھانے کی سعی کرتا رہا‘ جھوٹ سے پرہیز کرتا ہوں‘ اللہ کا خوف اور رسولؐ کی محبت گردن سیدھی نہیں ہونے دیتی‘ والدین اور بچوں کو جان سے زیادہ عزیز رکھتا ہوں‘ حق داروں کا حق ادا کرتا ہوں‘ ہمسایوں کو تکلیف نہیں دیتا ‘ گواہی نہیں چھپاتا‘ جانوروں پر ظلم نہیں کرتا‘ ملازمین کی ضرورتوں کا خیال رکھتا ہوں‘ خاندان‘ دوست‘ساتھی اور کولیگز خوش ہیں اور سب سے بڑھ کر اطمینان کی نیند سوتا ہوں لیکن اس کے باوجود جس کا دل چاہتا ہے وہ مجھے کافر‘ منافق اور اسلام دشمن قرار دے دیتا ہے‘ لوگوں نے میرے ایمان کی جیب میں جھانکنا معمول بنا لیا‘ بریلوی مجھے وہابی سمجھتے ہیں‘ وہابی شیعہ کہہ دیتے ہیں۔
شیعہ سنی کا خطاب دے کر نفرت کرتے ہیں‘ لبرل مجھے مولوی کہتے ہیں اور مولوی دنیا دار کافر کا ٹائٹیل دے دیتے ہیں‘ میں ہر وقت کسی نہ کسی فرقے سے اپنی گردن بچانے کی کوشش کرتا رہتا ہوں‘ میں خلفائے راشدین کی تعریف سے پہلے مخاطب کا مکتبہ فکر جاننے کی کوشش کرتا ہوں‘ میں ڈاکٹر عبدالسلام کا نام لکھنے سے قبل دس دس بار سوچتا ہوں‘ مجھے آج ہندو‘ سکھ‘ عیسائی‘ یہودی اور بے دین سے اتنا خطرہ محسوس نہیں ہوتا جتنا میں اپنے مسلمان بھائیوں سے ڈرتا ہوں‘ میرے خوف کا یہ عالم ہے۔
میں نماز کے لیے مسجد نہیں جا سکتا کیونکہ ملک کی ہر مسجد کسی نہ کسی مذہبی ٹھیکیدار کی جاگیر ہے اور آپ جوں ہی اس مسجد کی دہلیز پر قدم رکھتے ہیں‘ آپ مسلمان نہیں رہتے‘ آپ وہابی‘ بریلوی‘ دیوبندی یا شیعہ بن جاتے ہیں‘ آج اس ملک کے مسلمانوں کی حالت یہ ہے‘ یہ (نعوذ باللہ) اللہ تعالیٰ سے اتنے نہیں ڈرتے جتنا یہ اللہ کے بندوں سے خوفزدہ ہیں چنانچہ مولانا میری رہنمائی فرمائیے‘ میں اچھا مسلمان کیسے بن سکتا ہوں‘ اتنا اچھا مسلمان کہ کسی مسلمان کو میری مسلمانی مشکوک نہ لگے‘ یہ میرے قتل کا فتویٰ جاری نہ کرے‘ یہ مجھے منافق نہ کہے اور یہ مجھے بے ایمان کا خطاب نہ دے‘ آپ رہنمائی فرمائیے‘ میں کیا کروں‘‘۔ میں خاموش ہو گیا۔
مولانا پر گہری خاموشی طاری تھی‘ وہ بڑی دیر تک میرے چہرے کی طرف دیکھتے رہے‘ ٹھنڈی سانسیں بھرتے رہے اور ہاتھ ملتے رہے‘ ہمارے درمیان خاموشی کا وقفہ طویل ہو گیا تو میں نے عرض کیا ’’ مولانا اس ملک میں جنرل پرویز مشرف بھی غدار ہیں اور خواجہ آصف بھی‘ حامد میر چھ گولیاں کھا کر بھی غدار ہیں اور ان کی حب الوطنی کی گواہی دینے والے میرے جیسے لوگ بھی۔ پاکستان میں جنرل یحییٰ خان بھی غیر محب وطن تھا اور بھٹو بھی‘ اس میں جنرل ضیاء الحق کو بھی گالی پڑتی ہے اور محترمہ بے نظیر بھٹو کو بھی‘ اس میں میاں نواز شریف کی حب الوطنی بھی مشکوک ہے اور شوکت عزیز کی بھی‘ اس میں مسجد محفوظ ہے اور نہ ہی امام بارگاہ ‘ اس میں تبلیغی جماعت کے ایمان پر بھی انگلی اٹھتی ہے اور بریلوی مکتبہ فکر پر بھی‘ اس میں‘ میں بھی کافر ہوں اور جامع الازہر‘ مدینہ یونیورسٹی اور قم یونیورسٹی کے فارغ التحصیل آپ جیسے علماء کرام بھی‘ اس ملک میں‘ میں بھی جان بچاتا پھر رہا ہوں اور آپ جیسے علماء کرام بھی چنانچہ آپ بتائیں‘ ہم کریں تو کیا کریں؟
میں داڑھی رکھوں تو کتنی رکھوں‘ ٹخنے ننگے رکھوں تو کتنے رکھوں‘ میرے ماتھے پر کتنا بڑا محراب ہو گا تو لوگ مجھے مسلمان تسلیم کریں گے‘ میں اپنے نام کے ساتھ کیا لگا لوں اور کیا ہٹا دوں تو میرا ایمان کامل ہو جائے گا‘ میں خود کو محب وطن ثابت کرنے کے لیے کس کو سیلوٹ کروں اور کس کو گالی دوں‘ میں کس رنگ کے کپڑے پہنوں‘ میں کون سا لباس پہنوں‘ میں کیا کھائوں‘ کیا نہ کھائوں‘ کہاں جائوں اور کہاں نہ جائوں اور کیا بولوں اور کیا نہ بولوں اور کیا کہوں تو لوگ مجھے محب وطن اور سچا مسلمان سمجھیں گے‘ میں خود کو مسلمان اور پاکستانی ثابت کرنے کے لیے مزید کیا کروں؟‘‘
میں نے مولانا سے عرض کیا ’’ مولانا صاحب میں جب بھی اس ملک کی سرحدوں سے باہر نکلتا ہوں تو میں اجنبی معاشروں‘ اجنبی لوگوں اور اجنبی جگہوں پر بے خوف پھرتا ہوں‘ میں جہاں چاہتا ہوں‘ جیسے چاہتا ہوں‘ نماز پڑھ لیتا ہوں کوئی مجھ سے سوال نہیں پوچھتا لیکن مجھے اپنے ملک میں سیکیورٹی بھی چاہیے اور ایمان کا سرٹیفکیٹ بھی۔ کیوں؟ میرے جیسے لوگ اپنے ملک میں کیوں خوف زدہ ہیں؟‘‘ مولانا نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا‘ مسکرائے اور فرمایا ’’ جاوید صاحب میں معذرت چاہتا ہوں‘ میرے پاس دونوں سوالوں کا جواب نہیں‘‘ وہ اٹھے اور نماز ادا کرنے کے لیے حجرے میں چلے گئے۔
شاید یہ بھی میری طرح اپنی نماز کو خفیہ رکھنا چاہتے تھے‘ میں مولانا کے گھر سے باہر آگیا لیکن سوال میرے باطن سے باہر نہیں نکلے چنانچہ میں یہ دونوں سوال اس ملک کے تمام محب وطن اور عظیم مسلمانوں کے سامنے رکھتا ہوں‘آپ میری رہنمائی فرمائیں‘ میں محب وطن اور اچھا مسلمان کیسے بن سکتا ہوں‘ مجھے جان بچانے کے لیے حب الوطنی اور مسلمانی دونوں کے سر ٹیفکیٹ درکارہیں‘ میں یہ سر ٹیفکیٹ کس سے حاصل کر سکتا ہوں‘ پلیز میری مدد کریں۔
 

arifkarim

معطل
میں محب وطن اور اچھا مسلمان کیسے بن سکتا ہوں‘ مجھے جان بچانے کے لیے حب الوطنی اور مسلمانی دونوں کے سر ٹیفکیٹ درکارہیں‘ میں یہ سر ٹیفکیٹ کس سے حاصل کر سکتا ہوں‘ پلیز میری مدد کریں۔
پہلے یہ فیصلہ کر لیں کہ ایک اچھا مسلمان بننا ہے یا ایک اچھا محب وطن؟ یاد رہے کہ دین اسلام میں کسی قومی وطن کا کوئی تصور موجود نہیں ہے۔ طلوع اسلام کے بعد خلافت راشدین کے زمانہ میں جتنی بھی مثالی اسلامی حکومتیں قائم کی گئیں وہ کسی بھی قوم سے وابستگی سے آزاد تھیں۔ دین اسلام میں ایک اسلامی اُمت کا نظریہ موجود ہے جسکی بنیاد پر خلافت کا نظام چلتا ہے اور تمام مسلمان قومیں اسکی تابع ہوتی ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ ابتدائی خلافت راشدین کے زمانہ کے بعد اس قسم کی کوئی مثالی خلافت جہاں حب الوطنی کا اطلاق ہو سکے وجود میں نہیں آئی۔
http://en.wikipedia.org/wiki/Rashidun_Caliphate
 
Top