عبد الرحمن
لائبریرین
ہمارے وجود میں ہمیشہ سے دو روحیں آباد رہی ہیں۔ دو روحوں کا رہنا مطلب ہر وقت کے تضادات اور مخالفتوں کی زد میں رہنا۔ یقینا یہ مسئلہ کئیوں کا ہوگا لیکن بہت بڑی تعداد اس امر سے ہمیشہ بے خبر رہتی ہے۔ اور جنہیں پتہ چل جائے وہ ہماری طرح بات بے بات مارے مارے پھرتے ہیں۔
عزیزی کے شدہ شدہ ہونے کے دن قریب تھے۔ عزیزی کو ہمارے عزیز دوست کی عرفیت سمجھنا چاہیے۔ تاہم سوال اٹھتا ہے کہ خوشیوں کے موقع پر فلسفے بگھارنے کی کیا ضرورت آ پڑی۔ در اصل ہمارے اندر موجود ارواح کا یہ تصادم انہی خوش کن ایام سے منسلک ہے اس لیے ان کا بیان ناگزیر ہے۔
میاں عزیزی کی حکمیہ فرمائش تھی کہ ان کی شادی پر اسی رنگ کا ٹو پیس سوٹ پہنا جائے جو دلہے کے لیے ان کے سسرال سے بھیجا گیا ہے۔ سوٹ دلانے کی ذمہ داری ہمارے دلہے راجہ نے کہے بنا خوشی خوشی اٹھانے کی حامی بھری تھی۔ البتہ جب رقم ادا کرنے کی بات آئی بات آئی گئی ہو گئی۔ انہوں نے دونوں ہاتھ کھڑے کر لیے۔ تاہم اتنی سخاوت کا مظاہرہ ضرور کیا کہ اگر کچھ اوپر نیچے ہو جاتا ہے تو وہ سنبھال لیں گے اور شادی کی تکمیل تک واپسی کا تقاضا نہیں کریں گے۔ اس فراخ دلی پر ہم نے ان کی شان میں زیر لب جو قصیدہ پڑھا اگر اس کی بھنک بھی انہیں پڑ جاتی تو شادی میں عدم شرکت یقینی تھی۔
اگلے دن وہ ہمیں اپنی گاڑی میں لیے ایک معروف برانڈ کی آؤٹ لیٹ پر پہنچ گئے۔ اندر قدم رکھتے ہی ہماری آنکھیں خیرہ ہو گئیں۔ لباسِ فاخرہ پہننے اوڑھنے کے شوقین ہم بھی کسی حد تک ہیں لیکن جہاں ہمارے لاڈلے دلہے میاں ہمیں لائے تھے وہ ہمارے لیے ایک بالکل نیا تجربہ تھا۔
جیسا کہ عرض کیا، ہم کپڑے پہننے کے شوقین ہیں لیکن خرید کر پہننے کے قدرے خلاف ہیں، اس لیے ہمیں قیمتوں کی بھرپور معلومات نہیں ہوتی۔ چناں چہ اسی لا علمی کے سبب ہم جیب میں محض دس ہزار رکھ کر آ گئے جسے ہم بار بار جیب پر ہاتھ رکھ کر محسوس کر رہے تھے۔
اپنے آپ کو ایک بہت بڑی رقم کا مالک سمجھ کر ہم نے کوٹ پینٹ دیکھنا شروع کر دیے۔ گویا آج کی تاریخ کے سب سے بڑے خریدار ہم ہی تھے۔ اور ایسے اونچے خریدار کم ہی ان مہنگی دکانوں پر رونق افروز ہوتے ہیں۔ کچھ آؤٹ لیٹ کے اسٹاف کی آؤ بھگت نے بھی ہمیں چڑھا دیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ہم نے ایک کی جگہ دو سوٹ پسند کر لیے۔
قیمت پوچھی تو ہمیں اپنی مرضی کے ہندسے سنائی دیے۔ 36 تک ہم نے صاف سنا اس کے بعد قوت سماعت نے ہمارے ساتھ اعصاب شکن فریب کیا۔ اسی لیے 36 کے آگے ہم نے سو کا لاحقہ اپنی مرضی سے جوڑ لیا۔ حساب کتاب کیا۔ بچت نظر آئی اور یوں ہم نے اپنی دوہری پسند کو حتمی کر دیا۔
کاؤنٹر پر پہنچ کر جس شان بے نیازی سے ہم نے دس ہزار دوسری جانب بڑھائے اس کا جواب ہمیں فوری مل گیا۔
رقم لیتے ہوئے سامنے سے پوچھا گیا کہ "سر ریمیننگ 62 ٹھاؤزنڈ کارڈ سے پے کریں گے؟"
"سوری؟"
مجال ہے جو مجھے ایک لفظ بھی سمجھ آیا ہو۔ چناں چہ یہی بات اس نے اب کی بار مکمل اردو میں دہرائی۔
"باقی کے باسٹھ ہزار کارڈ سے ادا کریں گے سر؟"
سوال سمجھ آتے ہی ہم نے دوست کو اور دوست نے ہمیں دیکھا۔ فرق صرف نظروں کا تھا۔ ہماری آنکھوں سے خجالت ٹپک رہی تھی جب کہ اس کی آنکھوں میں قیامت امڈ رہی تھی۔ ہماری حالت اس وقت اس نو بیاہتا جوڑے کی مانند تھی جسے اپنی ہی سہاگن کو نظر بھر کر دیکھنے پر بد نظر قرار دے دیا جائے۔ ہمارا خون پوری طرح خشک ہو چکا تھا۔ پانچ چھے جتنے بھی حواس ہوتے ہیں سب معطل ہو چکے تھے۔ وہ تو بھلا ہو دلہے دوست کا جس نے ہمارے بھرم میں ذرا بھی ورم نہ آنے دیا۔ آگے بڑھ کر آن واحد میں اپنے کارڈ سے رقم کٹوائی اور ہمیں تقریباً گھسٹتے ہوئے باہر لے گئے۔ لیکن پھر ہوا یہ کہ واپسی پر گاڑی میں ہمیں وہ وہ سننے کو ملی کہ اگر دلہے کا ہونے والا سسرال بھی اس وقت وہاں موجود ہوتا تو یقینا ان کی شادی کھٹائی میں پڑ جاتی۔
خیر سچ بتائیں تو ہمیں قطعی افسوس نہ ہوا کہ اپنوں کے ہاتھوں اٹھائی گئی ذلت غیروں کے سامنے رسوا ہونے سے کئی بہتر ہے۔
یہ سب تو ہو چکا۔ جس پر ہم آسودہ تھے اور افسردہ بھی۔ لیکن پریشان کن بات یہ تھی کہ ہمارے اندر کی دونوں آتمائیں اب بیدار ہو چکی تھیں۔
تاہم اس پر روشنی ڈالنے سے پہلے یہ بتاتے چلیں کہ ہمیں آف وائٹ رنگ میں ایک تیسرا سوٹ بھی پسند آیا تھا جسے اٹھانے کے لیے ہم پر تول چکے تھے۔ اپنے اندازے سے ہمیں دو سوٹ خریدنے کے بعد ہزار بارہ سو کا معمولی سا ادھار لینا پڑتا اور یوں تھوڑے پیسوں میں ہماری بھاری بھرکم شاپنگ ہو جاتی۔ لیکن اب وہ پیراہن بیش بہا ہونے کے باوجود ہمارے لیے کاغذی ہو چکا تھا۔
اب ہمارے اندرونی مد و جزر کی باری آتی ہے۔
ایک جانب سے یہ بے جان سی آواز ابھری کہ چلو آج دل کے سارے ارمان پورے ہوئے۔ حسرتوں کے پہاڑ تہہ و بالا ہوئے۔ دوسری جانب سے ایک جان دار پکار نے جھنجھوڑ کر رکھ دیا کہ پچھتر ہزار کی عیش پرستی وہ بھی فی زمانہ کمر توڑتی گرانی میں، کرنی چاہیے تھی؟ جہاں مقصد چند روپیوں سے حاصل ہو سکتا تھا وہاں پورا بینک لٹا دینا خدا کے یہاں مجھے کیا ثابت کرے گا؟
اس بحث سے ہم نے ہمیشہ کنارہ کیے رکھا کہ مہنگا لباس ایک بار پہننے کے لیے لیا جا رہا ہے یا اسے پہن کر سونا جاگنا ہے۔ خریدنے والے نے اگر اپنی محنت کی کمائی سے خریدا ہے تو اسے شاہ خرچ یا خرچیلا کہنے والا ہماری نظر قابل اعتراض ہے۔ وہ جہاں چاہے اور جتنا چاہے اڑائے۔ لیکن جہاں تک ہم نے اپنے آپ کو جانا ہے ہماری فطرت میں اسراف اپنی جگہ بنانے میں ہمیشہ ناکام رہا ہے۔ لیکن اس پہلو سے بھی انکار نہیں کہ یہ وہ برسوں پرانے شوق ہی تھے جن کے باعث آج ہم زیادہ مزاحمت نہ کر سکے اور ایک کی جگہ دو جوڑے دبا لیے اور تیسرے کو غم زدہ دل کے ساتھ چھوڑ آئے۔ ہزاروں کا جو قرضہ اپنے اوپر چڑھا بیٹھے وہ الگ۔ قرض نہ بھی چڑھتا، ہماری اپنی جیب سے روپیہ جاتا تب بھی ہم اپنے آپ کو اتنا کھلا اور آزاد چھوڑنے کے قائل نہ تھے۔
مزید شرمندگی کی بات یہ تھی کہ سخاوت کے اس مظاہرے سے پہلے ہمیں غربت سڑکوں اور چوراہوں پر نظر آتی تھی لیکن آج اس کا دائرہ وسیع ہو کر ہمارے پڑوسیوں، رشتہ داروں اور اندرون و بیرون ممالک تک پہنچ چکا تھا۔ یہاں تک کہ ہمارے باس کا وہ چہرہ بھی ہماری نظروں کے سامنے موجود تھا جو ہر مہینے کی آخری تاریخ کو ہمیں چیک دیتے وقت بھیگ جاتا تھا۔ تنخواہ لینے والے اور دینے والے دونوں یہاں خون کے آنسو روتے ہیں اور تم ہو کہ عیاشیاں کرتے پھر رہے ہو؟ ہماری ضمیر نے ہمیں کچوکا لگایا۔ گویا آج تمام کائنات مل کر ہم پر نشتر زنی کر رہی تھی۔
اسی ادھیڑ بن میں خوشی کی مبارک گھڑی بھی آ پہنچی۔ جس وقت ہم نے کوٹ زیب تن کیا تو حقیقت یہ ہے کہ کوٹ اپنی قیمت اپنے منہ سے بیان کر رہا تھا۔ اس لمحے ہمیں اپنے فیصلے پر یک گونہ اطمینان نصیب ہوا۔ لیکن اگلے ہی لمحے قوم کا درد ہمیں پھر اندر سے نگلنے لگا۔ اور ہم کوٹ پتلون پہنے اسی شش و پنج کے ساتھ بارات میں شامل ہو گئے۔
چھوٹا منہ بڑی بات، ہال میں داخل ہونے سے لے کر دوست کو تمام تر پروٹوکول کے ساتھ اسٹیج پر بٹھانے تک کے مراحل میں اگر دولہے کے بعد لوگوں کی نظریں کسی پر اٹھتی تھیں تو وہ ہم ہی تھے۔ لیکن ہم ابھی بھی خود سے ناخوش و ناراض تھے۔
ہر گزرتے لمحے کے ساتھ مہمانوں کی آمد میں اضافہ ہوتا رہا۔ ہماری حیثیت بھی خاندان کے فرد کی سی تھی اس لیے ہم ایک جگہ بیٹھنے کے بجائے جملہ انتظامات کا چیک اینڈ بیلنس رکھنے میں مصروف تھے۔
دریں اثنا ایک خوب صورت وجود نے ہال میں قدم رکھا۔ وہ ایک لڑکی نہیں بلکہ کوہ قاف سے آئی اپسرا تھی۔ جس کی آمد سے دل نے بہار اور درد کی دوا پائی تھی۔
وہ ماہ رو فراک اسٹائل کی ایک سیاہ قمیص میں ملبوس تھی۔ کسے ہوئے پائنچوں والا ایڑھی سے اوپر کو جاتا پاجامہ اور بائیں کندھے پر پڑا زمین کو چھوتا دل کش لمبا دوپٹہ۔ بال کچھ اس ادا سے کہ دایاں کان عیاں اور بایاں ڈستی زلفوں کی اوٹ لیے ہوئے تھا۔ مسکارے ہر آنکھ سے جھلک رہے تھے لیکن لشکارے اسی ظالم کی آنکھوں سے نکل رہے تھے۔ رہے ہونٹ تو دنیا بھر میں پیدا ہونے والے انار کی سرخی کا ماخذ اس کے لبوں کی لالی تھا۔
اس ماہ سیما کی سرخ و سفید رنگت پر سیاہ لوازمات کی آمیزش نے مجھے پل بھر میں مبہوت و مسحور کر دیا تھا۔ پورے منظر نامے میں وہی ایک منظر لائق دید تھا باقی تو سب اب لائق تعزیر تھا۔
ہرن کی چال کی مانند خراماں خراماں چلتی وہ اسٹیج پر پہنچ گئی۔ ہم دولہے کے قرب و بعد کے سارے ہی رشتہ داروں سے شناسا تھے۔ لیکن یہ کون تھا جو سیدھا پرستان سے زیبائش محفل کو دوبالا کرنے چلا آیا تھا۔
جلوہ گر بزم حسیناں میں ہیں وہ اس شان سے
چاند جیسے اے قمرؔ تاروں بھری محفل میں ہے
ہم یہ جاننے کے لیے اب مچل مچل رہے تھے کہ یہ پری وش کون ہے اور ہمارے دوست کی کیا لگتی ہے۔ ہمارا تن بدن بھی اس وقت یہ سوچ سوچ کر جھلس رہا تھا کہ یوں تو ہمارا دوست وقت بے وقت الم غلم بولتا رہتا ہے، دور پرے کے ناتے داروں کے جھوٹے سچے قصے سناتا رہتا ہے۔ لیکن جس مہ پارہ سے اسے اول وہلہ میں متعارف کرانا چاہیے تھا وہاں اس نے نا قابلِ معافی غفلت کا مظاہرہ کیا تھا۔
غیر مطبوعہ رسم ہے کہ اسٹیج پر براجمان ہو جانے کے بعد دلہا دلہن کھڑے ہو کر کسی مہمان کا استقبال نہیں کرتے۔ لیکن اس اصول کی مکمل خلاف ورزی کرتے ہوئے ہمارے دولہے میاں بڑے تپاک سے اس ماہ لقا سے ملے۔ یہ ملن کافی دیر تک چلتا رہا۔ یا ہمیں کم از کم ایسا ہی لگا۔ البتہ اس میں دو رائے نہیں تھی کہ دو منٹ کے دورانیے میں جو میٹھی مسکراہٹ ہمارے دولہا کے ہونٹوں پر اب رقصاں تھی وہ پچھلے آدھے گھنٹے سے بھابھی کے ساتھ بیٹھنے کے بعد بھی مفقود تھی۔
عام حالات میں یہ جلنے کڑھنے کا مقام ہوتا۔ لیکن اس وقت صورت حال ہمارے حق میں تھی۔ وہ گل رخ اسٹیج چھوڑنے کو تیار نہ تھی یا یوں کہنا مناسب ہوگا کہ ہمارے دولہا دوست اسے رخصت کرنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ یقینا وہ اپنے نکاح والے دن بھی ہماری دوستی کا حق ادا کر رہے تھے۔
گفت گو میں شامل ہونے کا یہ بہترین وقت تھا۔ ہمارا ہند دماغ تیزی سے کام کرنے لگا اور جلد ہی ایک ترکیب ہمیں سوجھ گئی۔ در اصل ہماری جیبیں دنیا جہاں کے رقعوں، پرچیوں، لفافوں اور رسیدوں کا صدر دفتر ہے۔ کاغذی زر کے علاوہ یہاں ہر طرح کے کاغذات ہمہ وقت دستیاب ہیں۔ عام حالات میں اسے ہمارا انتہائی لا ابالی پن کہا جا سکتا ہے لیکن فی الوقت ہم نے اسے قدرت کی دستگیری اور مہربانی سمجھا۔ چناں چہ جیبوں کو ٹٹولتے ہی لمحے بھر میں ایک مڑا تڑا پھول بوٹوں سے مزین لفافہ ہمارے ہاتھ لگا۔ جسے معقول حالت میں لانے میں ذرا بھی تاخیر نہ کی گئی۔ جب یقین آ گیا کہ یہ قابل قبول حالت میں آ چکا ہے تو 50 روپے لفافے کی نذر کرتے ہوئے ہم نے اسٹیج کی جانب قدم بڑھا دیے۔
ہمیں یہ کہنے سے نہ روکا جائے کہ چلنے کے انداز سے لے کر بال سنوارنے تک، اور جیب میی ہاتھ ڈالنے سے لے کر آگے کا بٹن کھلا رکھنے تک ہیرو گری کے جتنے فلمی حربے، ہتھکنڈے اور داؤ پیچ ہمیں آتے تھے وہ سب ہم بڑی پھرتی سے بروئے کار لے آئے تھے۔ مزید بر آں ہمیں یہ بھی محسوس ہوا کہ اگر ہماری چہل قدمی کا منظر کسی فلمی سین کے لیے سلو موشن میں شوٹ کیا جا رہا ہوتا تو اسے نہ صرف سراہا جاتا بلکہ نئے آنے والے اسٹرگلرز ہماری واک کی کاپی بھی ضرور کرتے۔
اسٹیج چڑھ کر فرط محبت کا منافقانہ لبادہ اوڑھے ہم نے دوست کو پروقار انداز میں گلے لگایا اور شادی کی مبارک باد دیتے ہوئے لفافہ اس کی جیب میں اڑس دیا۔ البتہ اس دوران میں ہمارے چہرے پر جو دل کش تبسم تھا اس میں نفاق کا کوئی عمل دخل نہ تھا۔ لیکن اس کی وجہ دوست کی شادی نہیں، بلکہ شادی میں آیا مہمان خاص تھا۔ اس ساری کارروائی کے دوران میں ہم نے اس پری رخسار کو مکمل نظر انداز کیا لیکن ہم بھانپ چکے تھے کہ اس پری رو کی نظریں ہماری جانب ہی مرکوز تھیں۔
اسٹیج پر قسمت نے پھر یاوری کی تھی۔ وجہ جو بھی تھی لیکن حالات ہمارے موافق اور سازگار رہے۔ سمجھ نہ آیا کہ دوست واقعی بھول گیا تھا کہ ہم نکاح میں اس کے ساتھ ہی آئے تھے اور بھاری بھرکم لفافہ پہلے ہی تھما چکے تھے۔ یا محض سب جانتے بوجھتے ہمارا پردہ رکھ رہا تھا۔
ہمارے دولہے دوست کی قدر ہمیں تب ہوئی جب اس نے بھرپور انداز میں ہمارا تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ ان سے ملو یہ ہمارے بچپن سے تھوڑے بعد کے دوست ہیں اور ہمارے دل کے بہت قریب ہیں۔ بہت دنوں بعد ہمیں اس پر ٹوٹ کر پیار آیا۔ قریب تھا کہ اسے سینے سے لگا کر بے تحاشہ چوم لیتے۔ لیکن یوں ہماری ساخت بری طرح متاثر ہو جاتی۔
اسٹیج پر یہ پہلا موقع تھا جب ہم نے اس نور نظر کو نظر اٹھا کر دیکھا۔ جذبات سے بھرپور مسکراہٹوں کے تبادلے کے ساتھ ہمارے درمیان سلام دعا ہوئی۔ کوئی مانے نہ مانے لیکن واقعہ یہ تھا کہ پہلی ملاقات کے پہلے چند لمحوں کے باوجود اجنبیت نامی شے ہم دونوں کے درمیان حائل نہ ہوئی تھی۔ گویا؎
بے حجابانہ وہ سامنے آ گئے اور جوانی جوانی سے ٹکرا گئی
آنکھ ان کی لڑی یوں مری آنکھ سے دیکھ کر یہ لڑائی مزا آ گیا
گپ شپ پہلے ہی اس نہج پر تھی کہ ہمیں اس میں شامل ہونے میں ذرہ بھی مشقت نہ اٹھانی پڑی۔ اور کچھ دیر ادھر ادھر کی باتوں کے بعد ہم دونوں دولہا کو بھابھی کے حوالے کر کے نیچے اتر آئے۔
واضح محسوس کیا جا سکتا تھا کہ ہمارے پہناوے سمیت مجموعی طور پر وہ نور مجسم ہم سے متاثر تھی۔ ہمارے رنگوں کا تال میل ہمیں ایک دوسرے کے لیے پر کشش اور قریب سے گزرنے والوں کے لیے قابل رشک بنا رہا تھا۔ ہم تکلف کی چادر میں سمٹے اپنی اپنی میزوں پر ڈھیر ہونے کے بجائے بے جھجھک اور دنیا و مافیہا بے نیاز اپنا کونا پکڑے ایک دوسرے میں محو تھے۔
"آپ کا ڈریسنگ سینس قابل تعریف ہے۔"
باتوں باتوں میں بات لباس پر پہنچ گئی۔
"ساری محنت آپ کے لیے ہی کی ہے۔"
آج سے پہلے اتنا صاف گو ہم کبھی نہ ہوئے تھے۔
"ولیمے پر کیا پہنیں گے؟ میں آف وائٹ پہنوں گی۔"
گویا اس دن بھی قیامت برپا ہوگی۔
"ولیمے کے لیے آف وائٹ میں نے پہلے ہی خرید رکھا ہے۔"
آج سے پہلے ہم اس قدر جھوٹے بھی کبھی نہ ہوئے تھے۔
میں کون تھا، کیا تھا، میرے اندر کون بستا تھا، کون رہتا تھا، میرے آلام و افکار کیا تھے۔
ان سب سوالوں سے کہیں بہت دور میرا ذہن دوست کا کارڈ پھر سے اینٹھنے کی منصوبہ بندی میں مصروف تھا۔
عزیزی کے شدہ شدہ ہونے کے دن قریب تھے۔ عزیزی کو ہمارے عزیز دوست کی عرفیت سمجھنا چاہیے۔ تاہم سوال اٹھتا ہے کہ خوشیوں کے موقع پر فلسفے بگھارنے کی کیا ضرورت آ پڑی۔ در اصل ہمارے اندر موجود ارواح کا یہ تصادم انہی خوش کن ایام سے منسلک ہے اس لیے ان کا بیان ناگزیر ہے۔
میاں عزیزی کی حکمیہ فرمائش تھی کہ ان کی شادی پر اسی رنگ کا ٹو پیس سوٹ پہنا جائے جو دلہے کے لیے ان کے سسرال سے بھیجا گیا ہے۔ سوٹ دلانے کی ذمہ داری ہمارے دلہے راجہ نے کہے بنا خوشی خوشی اٹھانے کی حامی بھری تھی۔ البتہ جب رقم ادا کرنے کی بات آئی بات آئی گئی ہو گئی۔ انہوں نے دونوں ہاتھ کھڑے کر لیے۔ تاہم اتنی سخاوت کا مظاہرہ ضرور کیا کہ اگر کچھ اوپر نیچے ہو جاتا ہے تو وہ سنبھال لیں گے اور شادی کی تکمیل تک واپسی کا تقاضا نہیں کریں گے۔ اس فراخ دلی پر ہم نے ان کی شان میں زیر لب جو قصیدہ پڑھا اگر اس کی بھنک بھی انہیں پڑ جاتی تو شادی میں عدم شرکت یقینی تھی۔
اگلے دن وہ ہمیں اپنی گاڑی میں لیے ایک معروف برانڈ کی آؤٹ لیٹ پر پہنچ گئے۔ اندر قدم رکھتے ہی ہماری آنکھیں خیرہ ہو گئیں۔ لباسِ فاخرہ پہننے اوڑھنے کے شوقین ہم بھی کسی حد تک ہیں لیکن جہاں ہمارے لاڈلے دلہے میاں ہمیں لائے تھے وہ ہمارے لیے ایک بالکل نیا تجربہ تھا۔
جیسا کہ عرض کیا، ہم کپڑے پہننے کے شوقین ہیں لیکن خرید کر پہننے کے قدرے خلاف ہیں، اس لیے ہمیں قیمتوں کی بھرپور معلومات نہیں ہوتی۔ چناں چہ اسی لا علمی کے سبب ہم جیب میں محض دس ہزار رکھ کر آ گئے جسے ہم بار بار جیب پر ہاتھ رکھ کر محسوس کر رہے تھے۔
اپنے آپ کو ایک بہت بڑی رقم کا مالک سمجھ کر ہم نے کوٹ پینٹ دیکھنا شروع کر دیے۔ گویا آج کی تاریخ کے سب سے بڑے خریدار ہم ہی تھے۔ اور ایسے اونچے خریدار کم ہی ان مہنگی دکانوں پر رونق افروز ہوتے ہیں۔ کچھ آؤٹ لیٹ کے اسٹاف کی آؤ بھگت نے بھی ہمیں چڑھا دیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ہم نے ایک کی جگہ دو سوٹ پسند کر لیے۔
قیمت پوچھی تو ہمیں اپنی مرضی کے ہندسے سنائی دیے۔ 36 تک ہم نے صاف سنا اس کے بعد قوت سماعت نے ہمارے ساتھ اعصاب شکن فریب کیا۔ اسی لیے 36 کے آگے ہم نے سو کا لاحقہ اپنی مرضی سے جوڑ لیا۔ حساب کتاب کیا۔ بچت نظر آئی اور یوں ہم نے اپنی دوہری پسند کو حتمی کر دیا۔
کاؤنٹر پر پہنچ کر جس شان بے نیازی سے ہم نے دس ہزار دوسری جانب بڑھائے اس کا جواب ہمیں فوری مل گیا۔
رقم لیتے ہوئے سامنے سے پوچھا گیا کہ "سر ریمیننگ 62 ٹھاؤزنڈ کارڈ سے پے کریں گے؟"
"سوری؟"
مجال ہے جو مجھے ایک لفظ بھی سمجھ آیا ہو۔ چناں چہ یہی بات اس نے اب کی بار مکمل اردو میں دہرائی۔
"باقی کے باسٹھ ہزار کارڈ سے ادا کریں گے سر؟"
سوال سمجھ آتے ہی ہم نے دوست کو اور دوست نے ہمیں دیکھا۔ فرق صرف نظروں کا تھا۔ ہماری آنکھوں سے خجالت ٹپک رہی تھی جب کہ اس کی آنکھوں میں قیامت امڈ رہی تھی۔ ہماری حالت اس وقت اس نو بیاہتا جوڑے کی مانند تھی جسے اپنی ہی سہاگن کو نظر بھر کر دیکھنے پر بد نظر قرار دے دیا جائے۔ ہمارا خون پوری طرح خشک ہو چکا تھا۔ پانچ چھے جتنے بھی حواس ہوتے ہیں سب معطل ہو چکے تھے۔ وہ تو بھلا ہو دلہے دوست کا جس نے ہمارے بھرم میں ذرا بھی ورم نہ آنے دیا۔ آگے بڑھ کر آن واحد میں اپنے کارڈ سے رقم کٹوائی اور ہمیں تقریباً گھسٹتے ہوئے باہر لے گئے۔ لیکن پھر ہوا یہ کہ واپسی پر گاڑی میں ہمیں وہ وہ سننے کو ملی کہ اگر دلہے کا ہونے والا سسرال بھی اس وقت وہاں موجود ہوتا تو یقینا ان کی شادی کھٹائی میں پڑ جاتی۔
خیر سچ بتائیں تو ہمیں قطعی افسوس نہ ہوا کہ اپنوں کے ہاتھوں اٹھائی گئی ذلت غیروں کے سامنے رسوا ہونے سے کئی بہتر ہے۔
یہ سب تو ہو چکا۔ جس پر ہم آسودہ تھے اور افسردہ بھی۔ لیکن پریشان کن بات یہ تھی کہ ہمارے اندر کی دونوں آتمائیں اب بیدار ہو چکی تھیں۔
تاہم اس پر روشنی ڈالنے سے پہلے یہ بتاتے چلیں کہ ہمیں آف وائٹ رنگ میں ایک تیسرا سوٹ بھی پسند آیا تھا جسے اٹھانے کے لیے ہم پر تول چکے تھے۔ اپنے اندازے سے ہمیں دو سوٹ خریدنے کے بعد ہزار بارہ سو کا معمولی سا ادھار لینا پڑتا اور یوں تھوڑے پیسوں میں ہماری بھاری بھرکم شاپنگ ہو جاتی۔ لیکن اب وہ پیراہن بیش بہا ہونے کے باوجود ہمارے لیے کاغذی ہو چکا تھا۔
اب ہمارے اندرونی مد و جزر کی باری آتی ہے۔
ایک جانب سے یہ بے جان سی آواز ابھری کہ چلو آج دل کے سارے ارمان پورے ہوئے۔ حسرتوں کے پہاڑ تہہ و بالا ہوئے۔ دوسری جانب سے ایک جان دار پکار نے جھنجھوڑ کر رکھ دیا کہ پچھتر ہزار کی عیش پرستی وہ بھی فی زمانہ کمر توڑتی گرانی میں، کرنی چاہیے تھی؟ جہاں مقصد چند روپیوں سے حاصل ہو سکتا تھا وہاں پورا بینک لٹا دینا خدا کے یہاں مجھے کیا ثابت کرے گا؟
اس بحث سے ہم نے ہمیشہ کنارہ کیے رکھا کہ مہنگا لباس ایک بار پہننے کے لیے لیا جا رہا ہے یا اسے پہن کر سونا جاگنا ہے۔ خریدنے والے نے اگر اپنی محنت کی کمائی سے خریدا ہے تو اسے شاہ خرچ یا خرچیلا کہنے والا ہماری نظر قابل اعتراض ہے۔ وہ جہاں چاہے اور جتنا چاہے اڑائے۔ لیکن جہاں تک ہم نے اپنے آپ کو جانا ہے ہماری فطرت میں اسراف اپنی جگہ بنانے میں ہمیشہ ناکام رہا ہے۔ لیکن اس پہلو سے بھی انکار نہیں کہ یہ وہ برسوں پرانے شوق ہی تھے جن کے باعث آج ہم زیادہ مزاحمت نہ کر سکے اور ایک کی جگہ دو جوڑے دبا لیے اور تیسرے کو غم زدہ دل کے ساتھ چھوڑ آئے۔ ہزاروں کا جو قرضہ اپنے اوپر چڑھا بیٹھے وہ الگ۔ قرض نہ بھی چڑھتا، ہماری اپنی جیب سے روپیہ جاتا تب بھی ہم اپنے آپ کو اتنا کھلا اور آزاد چھوڑنے کے قائل نہ تھے۔
مزید شرمندگی کی بات یہ تھی کہ سخاوت کے اس مظاہرے سے پہلے ہمیں غربت سڑکوں اور چوراہوں پر نظر آتی تھی لیکن آج اس کا دائرہ وسیع ہو کر ہمارے پڑوسیوں، رشتہ داروں اور اندرون و بیرون ممالک تک پہنچ چکا تھا۔ یہاں تک کہ ہمارے باس کا وہ چہرہ بھی ہماری نظروں کے سامنے موجود تھا جو ہر مہینے کی آخری تاریخ کو ہمیں چیک دیتے وقت بھیگ جاتا تھا۔ تنخواہ لینے والے اور دینے والے دونوں یہاں خون کے آنسو روتے ہیں اور تم ہو کہ عیاشیاں کرتے پھر رہے ہو؟ ہماری ضمیر نے ہمیں کچوکا لگایا۔ گویا آج تمام کائنات مل کر ہم پر نشتر زنی کر رہی تھی۔
اسی ادھیڑ بن میں خوشی کی مبارک گھڑی بھی آ پہنچی۔ جس وقت ہم نے کوٹ زیب تن کیا تو حقیقت یہ ہے کہ کوٹ اپنی قیمت اپنے منہ سے بیان کر رہا تھا۔ اس لمحے ہمیں اپنے فیصلے پر یک گونہ اطمینان نصیب ہوا۔ لیکن اگلے ہی لمحے قوم کا درد ہمیں پھر اندر سے نگلنے لگا۔ اور ہم کوٹ پتلون پہنے اسی شش و پنج کے ساتھ بارات میں شامل ہو گئے۔
چھوٹا منہ بڑی بات، ہال میں داخل ہونے سے لے کر دوست کو تمام تر پروٹوکول کے ساتھ اسٹیج پر بٹھانے تک کے مراحل میں اگر دولہے کے بعد لوگوں کی نظریں کسی پر اٹھتی تھیں تو وہ ہم ہی تھے۔ لیکن ہم ابھی بھی خود سے ناخوش و ناراض تھے۔
ہر گزرتے لمحے کے ساتھ مہمانوں کی آمد میں اضافہ ہوتا رہا۔ ہماری حیثیت بھی خاندان کے فرد کی سی تھی اس لیے ہم ایک جگہ بیٹھنے کے بجائے جملہ انتظامات کا چیک اینڈ بیلنس رکھنے میں مصروف تھے۔
دریں اثنا ایک خوب صورت وجود نے ہال میں قدم رکھا۔ وہ ایک لڑکی نہیں بلکہ کوہ قاف سے آئی اپسرا تھی۔ جس کی آمد سے دل نے بہار اور درد کی دوا پائی تھی۔
وہ ماہ رو فراک اسٹائل کی ایک سیاہ قمیص میں ملبوس تھی۔ کسے ہوئے پائنچوں والا ایڑھی سے اوپر کو جاتا پاجامہ اور بائیں کندھے پر پڑا زمین کو چھوتا دل کش لمبا دوپٹہ۔ بال کچھ اس ادا سے کہ دایاں کان عیاں اور بایاں ڈستی زلفوں کی اوٹ لیے ہوئے تھا۔ مسکارے ہر آنکھ سے جھلک رہے تھے لیکن لشکارے اسی ظالم کی آنکھوں سے نکل رہے تھے۔ رہے ہونٹ تو دنیا بھر میں پیدا ہونے والے انار کی سرخی کا ماخذ اس کے لبوں کی لالی تھا۔
اس ماہ سیما کی سرخ و سفید رنگت پر سیاہ لوازمات کی آمیزش نے مجھے پل بھر میں مبہوت و مسحور کر دیا تھا۔ پورے منظر نامے میں وہی ایک منظر لائق دید تھا باقی تو سب اب لائق تعزیر تھا۔
ہرن کی چال کی مانند خراماں خراماں چلتی وہ اسٹیج پر پہنچ گئی۔ ہم دولہے کے قرب و بعد کے سارے ہی رشتہ داروں سے شناسا تھے۔ لیکن یہ کون تھا جو سیدھا پرستان سے زیبائش محفل کو دوبالا کرنے چلا آیا تھا۔
جلوہ گر بزم حسیناں میں ہیں وہ اس شان سے
چاند جیسے اے قمرؔ تاروں بھری محفل میں ہے
ہم یہ جاننے کے لیے اب مچل مچل رہے تھے کہ یہ پری وش کون ہے اور ہمارے دوست کی کیا لگتی ہے۔ ہمارا تن بدن بھی اس وقت یہ سوچ سوچ کر جھلس رہا تھا کہ یوں تو ہمارا دوست وقت بے وقت الم غلم بولتا رہتا ہے، دور پرے کے ناتے داروں کے جھوٹے سچے قصے سناتا رہتا ہے۔ لیکن جس مہ پارہ سے اسے اول وہلہ میں متعارف کرانا چاہیے تھا وہاں اس نے نا قابلِ معافی غفلت کا مظاہرہ کیا تھا۔
غیر مطبوعہ رسم ہے کہ اسٹیج پر براجمان ہو جانے کے بعد دلہا دلہن کھڑے ہو کر کسی مہمان کا استقبال نہیں کرتے۔ لیکن اس اصول کی مکمل خلاف ورزی کرتے ہوئے ہمارے دولہے میاں بڑے تپاک سے اس ماہ لقا سے ملے۔ یہ ملن کافی دیر تک چلتا رہا۔ یا ہمیں کم از کم ایسا ہی لگا۔ البتہ اس میں دو رائے نہیں تھی کہ دو منٹ کے دورانیے میں جو میٹھی مسکراہٹ ہمارے دولہا کے ہونٹوں پر اب رقصاں تھی وہ پچھلے آدھے گھنٹے سے بھابھی کے ساتھ بیٹھنے کے بعد بھی مفقود تھی۔
عام حالات میں یہ جلنے کڑھنے کا مقام ہوتا۔ لیکن اس وقت صورت حال ہمارے حق میں تھی۔ وہ گل رخ اسٹیج چھوڑنے کو تیار نہ تھی یا یوں کہنا مناسب ہوگا کہ ہمارے دولہا دوست اسے رخصت کرنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ یقینا وہ اپنے نکاح والے دن بھی ہماری دوستی کا حق ادا کر رہے تھے۔
گفت گو میں شامل ہونے کا یہ بہترین وقت تھا۔ ہمارا ہند دماغ تیزی سے کام کرنے لگا اور جلد ہی ایک ترکیب ہمیں سوجھ گئی۔ در اصل ہماری جیبیں دنیا جہاں کے رقعوں، پرچیوں، لفافوں اور رسیدوں کا صدر دفتر ہے۔ کاغذی زر کے علاوہ یہاں ہر طرح کے کاغذات ہمہ وقت دستیاب ہیں۔ عام حالات میں اسے ہمارا انتہائی لا ابالی پن کہا جا سکتا ہے لیکن فی الوقت ہم نے اسے قدرت کی دستگیری اور مہربانی سمجھا۔ چناں چہ جیبوں کو ٹٹولتے ہی لمحے بھر میں ایک مڑا تڑا پھول بوٹوں سے مزین لفافہ ہمارے ہاتھ لگا۔ جسے معقول حالت میں لانے میں ذرا بھی تاخیر نہ کی گئی۔ جب یقین آ گیا کہ یہ قابل قبول حالت میں آ چکا ہے تو 50 روپے لفافے کی نذر کرتے ہوئے ہم نے اسٹیج کی جانب قدم بڑھا دیے۔
ہمیں یہ کہنے سے نہ روکا جائے کہ چلنے کے انداز سے لے کر بال سنوارنے تک، اور جیب میی ہاتھ ڈالنے سے لے کر آگے کا بٹن کھلا رکھنے تک ہیرو گری کے جتنے فلمی حربے، ہتھکنڈے اور داؤ پیچ ہمیں آتے تھے وہ سب ہم بڑی پھرتی سے بروئے کار لے آئے تھے۔ مزید بر آں ہمیں یہ بھی محسوس ہوا کہ اگر ہماری چہل قدمی کا منظر کسی فلمی سین کے لیے سلو موشن میں شوٹ کیا جا رہا ہوتا تو اسے نہ صرف سراہا جاتا بلکہ نئے آنے والے اسٹرگلرز ہماری واک کی کاپی بھی ضرور کرتے۔
اسٹیج چڑھ کر فرط محبت کا منافقانہ لبادہ اوڑھے ہم نے دوست کو پروقار انداز میں گلے لگایا اور شادی کی مبارک باد دیتے ہوئے لفافہ اس کی جیب میں اڑس دیا۔ البتہ اس دوران میں ہمارے چہرے پر جو دل کش تبسم تھا اس میں نفاق کا کوئی عمل دخل نہ تھا۔ لیکن اس کی وجہ دوست کی شادی نہیں، بلکہ شادی میں آیا مہمان خاص تھا۔ اس ساری کارروائی کے دوران میں ہم نے اس پری رخسار کو مکمل نظر انداز کیا لیکن ہم بھانپ چکے تھے کہ اس پری رو کی نظریں ہماری جانب ہی مرکوز تھیں۔
اسٹیج پر قسمت نے پھر یاوری کی تھی۔ وجہ جو بھی تھی لیکن حالات ہمارے موافق اور سازگار رہے۔ سمجھ نہ آیا کہ دوست واقعی بھول گیا تھا کہ ہم نکاح میں اس کے ساتھ ہی آئے تھے اور بھاری بھرکم لفافہ پہلے ہی تھما چکے تھے۔ یا محض سب جانتے بوجھتے ہمارا پردہ رکھ رہا تھا۔
ہمارے دولہے دوست کی قدر ہمیں تب ہوئی جب اس نے بھرپور انداز میں ہمارا تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ ان سے ملو یہ ہمارے بچپن سے تھوڑے بعد کے دوست ہیں اور ہمارے دل کے بہت قریب ہیں۔ بہت دنوں بعد ہمیں اس پر ٹوٹ کر پیار آیا۔ قریب تھا کہ اسے سینے سے لگا کر بے تحاشہ چوم لیتے۔ لیکن یوں ہماری ساخت بری طرح متاثر ہو جاتی۔
اسٹیج پر یہ پہلا موقع تھا جب ہم نے اس نور نظر کو نظر اٹھا کر دیکھا۔ جذبات سے بھرپور مسکراہٹوں کے تبادلے کے ساتھ ہمارے درمیان سلام دعا ہوئی۔ کوئی مانے نہ مانے لیکن واقعہ یہ تھا کہ پہلی ملاقات کے پہلے چند لمحوں کے باوجود اجنبیت نامی شے ہم دونوں کے درمیان حائل نہ ہوئی تھی۔ گویا؎
بے حجابانہ وہ سامنے آ گئے اور جوانی جوانی سے ٹکرا گئی
آنکھ ان کی لڑی یوں مری آنکھ سے دیکھ کر یہ لڑائی مزا آ گیا
گپ شپ پہلے ہی اس نہج پر تھی کہ ہمیں اس میں شامل ہونے میں ذرہ بھی مشقت نہ اٹھانی پڑی۔ اور کچھ دیر ادھر ادھر کی باتوں کے بعد ہم دونوں دولہا کو بھابھی کے حوالے کر کے نیچے اتر آئے۔
واضح محسوس کیا جا سکتا تھا کہ ہمارے پہناوے سمیت مجموعی طور پر وہ نور مجسم ہم سے متاثر تھی۔ ہمارے رنگوں کا تال میل ہمیں ایک دوسرے کے لیے پر کشش اور قریب سے گزرنے والوں کے لیے قابل رشک بنا رہا تھا۔ ہم تکلف کی چادر میں سمٹے اپنی اپنی میزوں پر ڈھیر ہونے کے بجائے بے جھجھک اور دنیا و مافیہا بے نیاز اپنا کونا پکڑے ایک دوسرے میں محو تھے۔
"آپ کا ڈریسنگ سینس قابل تعریف ہے۔"
باتوں باتوں میں بات لباس پر پہنچ گئی۔
"ساری محنت آپ کے لیے ہی کی ہے۔"
آج سے پہلے اتنا صاف گو ہم کبھی نہ ہوئے تھے۔
"ولیمے پر کیا پہنیں گے؟ میں آف وائٹ پہنوں گی۔"
گویا اس دن بھی قیامت برپا ہوگی۔
"ولیمے کے لیے آف وائٹ میں نے پہلے ہی خرید رکھا ہے۔"
آج سے پہلے ہم اس قدر جھوٹے بھی کبھی نہ ہوئے تھے۔
میں کون تھا، کیا تھا، میرے اندر کون بستا تھا، کون رہتا تھا، میرے آلام و افکار کیا تھے۔
ان سب سوالوں سے کہیں بہت دور میرا ذہن دوست کا کارڈ پھر سے اینٹھنے کی منصوبہ بندی میں مصروف تھا۔