آصف شفیع
محفلین
ایک غزل پیش خدمت ہے۔
پل میں دل توڑ دے کسی کا
منصب یہ نہیں ہے آدمی کا
آواز کو راستہ ملا ہے
اعجاز ہے میری خامشی کا
اک شمع خیال جل اٹھی ہے
اک باغ کھلا ہے شاعری کا
چہروں سے لہو ٹپک رہا ہے
پیغام دو کچھ تو آشتی کا
دنیا کی مجال کچھ نہیں ہے
بخشا ہوا سب ہے آپ ہی کا
کس دور کی بات کر رہے ہو
کوئی بھی نہیں یہاں کسی کا
ہر سانس پہ سوچتا ہوں آصف
قصہ کب تک ہے زندگی کا
آصف شفیع
پل میں دل توڑ دے کسی کا
منصب یہ نہیں ہے آدمی کا
آواز کو راستہ ملا ہے
اعجاز ہے میری خامشی کا
اک شمع خیال جل اٹھی ہے
اک باغ کھلا ہے شاعری کا
چہروں سے لہو ٹپک رہا ہے
پیغام دو کچھ تو آشتی کا
دنیا کی مجال کچھ نہیں ہے
بخشا ہوا سب ہے آپ ہی کا
کس دور کی بات کر رہے ہو
کوئی بھی نہیں یہاں کسی کا
ہر سانس پہ سوچتا ہوں آصف
قصہ کب تک ہے زندگی کا
آصف شفیع