پل پل تیری یاد ستائے نیند نہ آئے از روحانی بابا

پل پل تیری یاد ستائے نیند نہ آئے
رہ رہ کر یہ دل گھبرائے نیند نہ آئے
آنکھوں میں تصویر تیری تو رہتی ہے
کانوں میں آواز جو آئے نیند نہ آئے
مجھ کو تارے بھی اکثر یہ کہتے ہیں
تو نے جب سے دیپ جلائے نیند نہ آئے
یوں تو پیار وہ مجھ سے زیادہ کرتا ہے
ڈر رہتا ہے بھول نہ جائے نیند نہ آئے
جاگتی آنکھوں سے دل کا یہ پاگل پن
کیسے کیسے خواب دکھائے نیند نہ آئے
میں نے تو تھک ہار کے اب سوجانا ہے
اس کو جائے کون سلائے نیند نہ آئے
بابا سب کو نیند پیاری ہے لیکن
مجھ سے جو بھی آنکھ ملائے نیند نہ آئے
 
بھئی آپ نے قسم کھا رکھی ہے کہ ایک آدھ مصرع خارج از بحر اور ایک آدھ الفاظ کا غیر فصیح استعمال ہر پیش کش میں کرنا ہے۔ ویسے کوشش اچھی ہے۔
 

فاتح

لائبریرین
فیض بے چارے کا کلام چونکہ الہامی نہیں لہٰذا اس کی "اصلاح" کیے دیتے ہیں;)
بھولے سے مسکرا تو دیے تھے وہ آج فیضؔ
 
Top