الف نظامی
لائبریرین
کسی خیال کا ایک مصرعے میں بیان پنجابی زبان میں بولی کہلاتا ہے
پنجابی لوک شاعری وچ اک مصرعے دی نظم ’’بولی‘‘ کہلاندی اے
یعقوب آسی صاحب لکھتے ہیں :
بولی پنجابی لوک شاعری کی بہت قدیم اور مقبول صنف ہے۔ اس کا صرف ایک مصرع ہوتا ہے، جس کا ایک مخصوص وزن ہے۔ اس وزن سے ہٹ جائے تو اس کو بولی نہیں کہا جا سکتا۔ عام خیال یہی ہے کہ یہ صنف پنجاب میں زمانہ قدیم سے مقبول ہے۔ پنجاب کی مٹی میں گندھی ہوئی اور سرسوں کی مہک سے لدی اور ہوئی یہ صنف اپنے اندر نہ صرف بے پناہ ثقافتی رچاؤ رکھتی ہے بلکہ کومل جذبات کے اظہار کا ایک خوبصورت وسیلہ بھی ہے۔پنجابی لوک شاعری وچ اک مصرعے دی نظم ’’بولی‘‘ کہلاندی اے
یعقوب آسی صاحب لکھتے ہیں :
اردو عروض میں اس کا قریب ترین وزن فعلن (چھ بار) یعنی بارہ سبب کے برابر بنتا ہے۔ تاہم اس میں دو تین باتوں کو دھیان میں رکھنا ہو گا:
(1) معنی اور بُنَت دونوں اعتبار سے بولی کے دو حصے ہیں۔ پہلا حصہ سات سبب کا ہے۔ اس میں شعر کے مصرعے کی طرح مضمون کا ایک حصہ آتا ہے۔ دوسرا حصہ پانچ سبب کا ہے، معانی کے اعتبار سے اس کو شعر کا دوسرا مصرع سمجھ لیا جائے۔
(2) ہر حصہ سبب خفیف (ہجائے بلند) پر ختم ہو گا۔ عروض میں وسرام کی گنجائش نہیں ہے، اس کو حذف کر دیا گیا ہے۔
(3) بولی میں حرکات و سکنات کی ترتیب میں سخت پابندی لازم نہیں۔ تاہم ایک سے زیادہ سبب ثقیل (دو سے زیادہ ہجائے کوتاہ) متواتر نہ آئیں۔ بولی کا اختتام سبب خفیف پر ہونا چاہئے۔
جہاں تک موضوعات کا تعلق ہے، جیسے پہلے کہا جا چکا، بولی پنجاب کی دھرتی سے پھوٹی ہے۔ اس میں موضوع کوئی بھی ہو پنجاب کی ’’رہتل‘‘ کا عنصر غالب رہتا ہے۔ چھلیاں، کھلیان، دانے، مکئی، ٹانگا، کچہری، قید، جوگی، گھوک، چرخہ، پھیرے، تویت، پتن، دریا، کھیتی، ہل، پنجالی، واہن، کھال بنے، بیڑی، پگ، گوری، سَک، سُرمہ، مَجھ، گاں، ساگ، سرہوں، اچار، امبیاں، کھٹے،مکھن، دُدھ، کھُوئی، ٹاہلی، بیری، توت، تیلی، نتھ، مندری، اور ایسے بے شمار دیگر ثقافتی مظاہرہیں جو بولی کا تانا بانا بناتے ہیں۔
پروفیسر انور مسعود نے ۱۹۹۰ء میں ایک انٹرویو میں مشورہ دیا تھا کہ یہ پنجابی لوک شاعری کی سوغات ہے، اس میں آپ ایک سطر میں پوری نظم بیان کر جاتے ہیں۔ اس صنف کو اردو میں لانا چاہئے۔اکثر اصناف کے ساتھ یہ ہوا کہ ایک زبان سے دوسری زبان میں منتقل ہونے پر ان میں وہ اصل ثقافتی رچاؤ کم ہو گیا؛ اردو ماہئے مثال ہمارے سامنے ہے۔ عین ممکن ہے کہ بولی کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہو، تاہم میں نے پنجابی کی اس مقبول صنف کو اردو کا جامۂ اظہار دینے کی ابتدائی مشق کے طور پر کچھ بولیاں کہیں جو ماہنامہ ’’کاوش‘‘ ٹیکسلا (اکتوبر ۱۹۹۹ء) میں شائع ہوئیں۔ میری اولین کاوش ہونے کی وجہ سے مضامین اور خیال کی گہرائی اور گیرائی شاید وہ نہ رہی ہو گی جو اصل یعنی لوک پنجابی بولی میں پائی جاتی ہے۔ تاہم میری ارادی کوشش تھی کہ موضوعات اور اسلوب روایتی رہیں تاکہ ایک دم اجنبیت کا احساس پیدا نہ ہو (کہ زبان بدلی تو مضامین بھی جاتے رہے)۔
دل کا ہے کھیل انوکھا دونوں ہارتے ہیں
دو آنسو، اک رومال، اک شیشی خوشبو کی
اک تیری یاد کا ساون، اک رومال ترا
کہیں دور کوئی کرلایا، آدھی رات گئے
پھر پھول کھلے زخموں کے، درد بہار آئی
شبِ تار فراق کی آئی، اشکوں کے دیپ جلیں
اک ہجر کا مارا تڑپا، دھرتی کانپ اٹھی
اک تارا دل میں ٹُوٹا، زخمی اشک ہوئے
من ساون گھِر گھِر برسا، روح نہال ہوئی
یادیں الّھڑ مٹیاریں، کیسی دیواریں
ترے شہر کے رستے پکّے، کچّا پیار ترا
وہ سانجھ سمے کی سرسوں، یہ دل کولھو میں
کہیں دور کوئی کرلایا، دھرتی کانپ اٹھی
دل جھل مل آنسو جگنو، تارے انگیارے
اک بیٹی ماں سے بچھڑی، رو دی شہنائی
سپنے میں جو تو نہیں آیا، نندیا روٹھ گئی
میں نے ہجر کی تان جو چھیڑی، بانسری رونے لگی
----
ملاحظہ کیجیے پنجابی بولیاں اور ان کا اردو ترجمہ
دو آنسو، اک رومال، اک شیشی خوشبو کی
اک تیری یاد کا ساون، اک رومال ترا
کہیں دور کوئی کرلایا، آدھی رات گئے
پھر پھول کھلے زخموں کے، درد بہار آئی
شبِ تار فراق کی آئی، اشکوں کے دیپ جلیں
اک ہجر کا مارا تڑپا، دھرتی کانپ اٹھی
اک تارا دل میں ٹُوٹا، زخمی اشک ہوئے
من ساون گھِر گھِر برسا، روح نہال ہوئی
یادیں الّھڑ مٹیاریں، کیسی دیواریں
ترے شہر کے رستے پکّے، کچّا پیار ترا
وہ سانجھ سمے کی سرسوں، یہ دل کولھو میں
کہیں دور کوئی کرلایا، دھرتی کانپ اٹھی
دل جھل مل آنسو جگنو، تارے انگیارے
اک بیٹی ماں سے بچھڑی، رو دی شہنائی
سپنے میں جو تو نہیں آیا، نندیا روٹھ گئی
میں نے ہجر کی تان جو چھیڑی، بانسری رونے لگی
----
ملاحظہ کیجیے پنجابی بولیاں اور ان کا اردو ترجمہ
آخری تدوین: