پنجاب اسمبلی اراکین کی تنخواہیں 2 لاکھ تک بڑھانے کا بل منظور

جاسم محمد

محفلین
پنجاب اسمبلی اراکین کی تنخواہیں 2 لاکھ تک بڑھانے کا بل منظور

punjab-assembly-640x480.jpg



پنجاب اسمبلی کے اراکین نے تنخواہیں بڑھانے کا بل کل کمیٹی کے سپرد کیا جو کہ آج اسمبلی سے منظور کر لیا گیا۔

بل کی منظوری کے بعد اب ہر رکن اسمبلی کم سے کم 2 لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ وصول کرے گا جبکہ اسمبلی سیشن میں آنے اور دیگر مراعات اسکے علاوہ ہیں۔

پنجاب اسمبلی میں تنخواہ بڑھانے کا بل متفقہ طور پر آج منظور کیا گیا جبکہ بل کے حولے سے کوئی بحث ہوئی نہ کسی نے اعتراض اٹھایا۔

ارکان کی تنخواہ 83 ہزار سے بڑھا کر 2 لاکھ روپے کی گئی ہے جبکہ سیشن میں شرکت سمیت دیگر مراعات بھی علیحدہ سے ملیں گی۔

ارکان کا مطالبہ تھا کہ ان کی تنخواہ خیبرپختوا اسمبلی کے برابر کی جائے جو تقریباً ڈیڑھ لاکھ روپے بنتی ہے۔ ارکان کے مطالبے پر اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الٰہی نے صوبائی وزیر قانون کو تجاویز مرتب کرنے کی ہدایت کی تھی۔

واضح رہے کہ اراکین اسمبلی تقریباً ہر دور میں اپنی تنخواہوں میں اضافے کی قرار دادیں منظور کر چکے ہیں، سابقہ اضافہ ن لیگ کے دور میں 2016ء میں کیا گیا تھا
پنجاب اسمبلی اراکین کی تنخواہیں 2 لاکھ تک بڑھانے کا بل منظور
 

جاسم محمد

محفلین
اس غریب مسکین قوم کا کوئی والی وارث بھی ہے یا نہیں؟ افواج اور سیاست دان مل کر اسے دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں
 

جاسم محمد

محفلین
اراکین پنجاب اسمبلی نے حسب روایت اپنی تنخواہوں میں اضافے کا بل منظور کرلیا اور چوبیس گھنٹے کے اندر اندر سمری تیار کرکے دستخط کیلئے بھی بھجوا دی۔بل کی منظوری کے وقت تحریک انصاف، ن لیگ، پی پی اور ق لیگ کے اراکین ایک دوسرے کے ساتھ ایسے گھل مل گئے جیسے وہ سب ایک ہی باپ کی اولاد ہوں اور ایک وسیع دسترخوان پر بیٹھ کر کھانے کا انتظار کررہے ہوں۔

چند ایک بنیادی سوالات ہیں:
کیا پاکستان میں رکن اسمبلی منتخب ہونا کسی نوکری کے حصول یا پروفیشنل ضرورت کے تحت ہوتا ہے؟ کوئی ایک رکن اسمبلی دکھا دیں کہ جو تنخواہ کا محتاج ہو ۔ ۔ ۔ جس کے پاس کروڑوں، اربوں کی جائیداد نہ ہو اور جو لگژری لائف سٹائل نہ رکھتا ہو۔

جب الیکشن ہوتے ہیں تو یہ اراکین اسمبلی دعوی کرتے ہیں کہ وہ پاکستان کے عوام کی بھلائی کیلئے سیاست کرنا چاہتے ہیں، ان کے پوسٹرز پر جلی حروف میں لکھا ہوتا ہے کہ عوام کا نمائیندہ، عوام کا خادم۔

کیا خادم ایسے ہوتے ہیں کہ جو اپنے مالک کی تنخواہ سے زیادہ خود تنخواہ لیتے ہوں؟
ہم ایسا قانون کیوں نہیں بناتے کہ جس سے اراکین اسمبلی کی تنخواہ گریڈ سولہ کے سرکاری ملازم یا پھر ایک مزدور کی اوسط ماہانہ آمدن کے برابر ہوں؟ اگر انہیں اپنی تنخواہوں میں اضافہ کرنا ہوگا تو پھر مزدور کی آمدن کے ذرائع بڑھانا ہوں گے ۔ ۔ ۔
اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو پھر انہیں تنخواہ میں اضافہ تو درکنار، تنخواہ لینے کا بھی حق نہیں ہونا چاہیئے۔

پنجاب اسمبلی کے تمام اراکین بغیر کسی تفریق کے، میری طرف سے لعنت قبول فرمائیں۔
بقلم خود باباکوڈا
 

جاسم محمد

محفلین
ذاتی گھرنہ ہونے پر وزیراعلیٰ پنجاب کو عمر بھر کیلیے گھر دینے کا بل منظور
198061_2509616_updates.jpg

پنجاب اسمبلی کے اراکین نے اپنی تنخواہوں میں اضافے کا بل بھی برق رفتاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے منظور کروالیا— فوٹو: فائل

لاہور: تنخواہوں میں اضافے کے معاملے میں پنجاب اسمبلی کے حکومتی ارکان کی برق رفتاری، گزشتہ روز بل ایوان میں پیش کیا، راتوں رات اپوزیشن کے ساتھ مل کر قائمہ کمیٹی سے منظور کرایا اور آج اپوزیشن کی غیرموجودگی میں منظور بھی ہوگیا۔

اراکین اسمبلی کی تنخواہ اور مراعات 83 ہزار روپے ماہانہ سے بڑھا کر ایک لاکھ 92 ہزار روپے تک کردی گئی۔

پنجاب عوامی نمائندگان ترمیمی بل 2019ء گزشتہ روز تحریکِ انصاف کے رکن غضنفرعباس چھینہ نے پنجاب اسمبلی میں پیش کیا، قائمہ کمیٹی برائے قانون نے منظوری دی اور 24 گھنٹے کے اندراندر منظور بھی ہو گیا، بل کی منظوری کے وقت اپوزیشن ارکان نے واک آؤٹ کیا ہوا تھا۔

بل کے تحت ارکانِ اسمبلی کی تنخواہ اور مراعات 83 ہزار ماہانہ سے بڑھ کر ایک لاکھ 92 ہزار روپے ہوگئی، بنیادی تنخواہ 18 ہزار سے بڑھا کر 80 ہزارروپے ماہانہ، ڈیلی الاؤنس 1 ہزار سے بڑھا کر 4 ہزار، ہاؤس رینٹ 29 ہزار سے بڑھا کر 50 ہزار، یوٹیلیٹی الاؤنس 6 ہزار سے بڑھا کر 20 ہزار روپے اور مہمان داری الاؤنس 10 ہزار سے بڑھا کر 20 ہزار روپے کردیا گیا۔

وزیر اطلاعات پنجاب صمصام بخاری کہتے ہیں کہ پنجاب اسمبلی کے ارکان کی تنخواہیں کے پی اور بلوچستان کی مطابق کرنا چاہتے ہیں کئی ارکان دور دراز سے آتے ہیں اس لیے تنخواہوں میں اضافہ ناگزیر تھا۔

وزیراعلیٰ پنجاب کو عمر بھر کیلئے گھر دینے کا بل منظور
اس کے علاوہ ذاتی گھرنہ ہونے پر پنجاب کے وزیراعلیٰ کو عمر بھر کیلیے گھر دینے کا بل بھی پنجاب اسمبلی میں منظور کیا گیا۔

بل کے مطابق عہدہ چھوڑتے وقت اگر وزیراعلیٰ کے نام ذاتی گھر نہ ہوا تو لاہور میں انہیں گھر فراہم کیا جائے گا۔ اس سے قبل وزیراعلیٰ پنجاب کو عہدے کے دوران رہائش فراہم کی جاتی رہی ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
حالانکہ ان کو پیسے لینے کی بجائے، عوامی ٹیکس سے بنی بلڈنگ کو استعمال کرنے کا کرایہ دینا چاہیئے قومی خزانے کو۔
 

جاسم محمد

محفلین
حکومت میں آئے ۷ ماہ ہو گئے ہیں اور ان کی عیاشیاں ختم نہیں ہو رہی۔ خیر اب کپتان خود میدان میں اتر آیا ہے۔ دیکھتے ہیں یہ پرانے پاکستانی کیا کرتے ہیں
 

محمداحمد

لائبریرین
یہ مایوسی وغیرہ تو ہم جیسے بے بس عوام کو ہونی چاہیے۔ خان صاحب کو تو چاہیے کہ وہ ان مفت خوروں کے خلاف ایکشن لیں۔

کیا کارنامہ سر انجام دیا اب تک پنجاب اسمبلی میں نئے پاکستان کی تشکیل کے لئے؟
 

جاسم محمد

محفلین
خان صاحب کیا ابھی تک سوشل میڈیا کے وزیرِ اعظم ہیں۔ ؟
۱۸ ویں آئینی ترمیم جو ماضی کی کرپٹ حکومتوں نے پاس کی تھی کے بعد وزیر اعظم اور وفاق کے اختیارات مزید محدود ہو چکے ہیں۔ عمران خان اب زیادہ سے زیادہ گورنر پنجاب کے ذریعہ دباؤ ڈال سکتے ہیں کہ پنجاب اسمبلی اس ناجائز بل میں ترامیم کرے۔
تنخواہیں بڑھانے پر اعتراض نہیں کہ وقت کی ضرورت ہے۔ پر اس کی بھی کوئی حدود ہوتی ہیں۔ اوپر سے تاحیات مراعات اور مفت علاج نے سونے پہ سہاگا کر دیا ہے۔ اس بل کو کسی صورت اس حالت میں منظور نہیں کیا جا سکتا
 

محمداحمد

لائبریرین
۱۸ ویں آئینی ترمیم جو ماضی کی کرپٹ حکومتوں نے پاس کی تھی کے بعد وزیر اعظم اور وفاق کے اختیارات مزید محدود ہو چکے ہیں۔ عمران خان اب زیادہ سے زیادہ گورنر پنجاب کے ذریعہ دباؤ ڈال سکتے ہیں کہ پنجاب اسمبلی اس ناجائز بل میں ترامیم کرے۔
پنجاب میں کیا ن لیگ کی حکومت ہے؟

بزدار کی اتنی تعریفیں خان صاحب اس دن کے لئے کیا کرتے تھے۔

تنخواہیں بڑھانے پر اعتراض نہیں کہ وقت کی ضرورت ہے۔

کیوں نہیں ہے ؟

ہمیں تو ہے۔ ہم پر تو ٹیکس پر ٹیکس لگائے جا رہے ہیں۔ ایک کہ بعد ایک کڑوا گھونٹ ہمیں یہ کہہ کر پلایا جا رہا ہے کہ مشکل وقت کاٹ لو۔ یہ ناکارہ لوگ جو اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں اور کوئی ڈھنگ کا کام نہیں کرتے ۔ یہ کیوں نہیں سمجھوتہ کرتے۔

الیکشن سے پہلے تو عوام کی خدمت کا بخار نہیں اُترتا۔ الیکشن کے بعد حاکم بن کر بیٹھ جاتے ہیں۔

اوپر سے تاحیات مراعات اور مفت علاج نے سونے پہ سہاگا کر دیا ہے۔ اس بل کو کسی صورت اس حالت میں منظور نہیں کیا جا سکتا

کیا ہیڈ آف دی اسٹیٹ عمران خان نہیں ہیں۔ کیا یہ مخلوط حکومت ہے جو خان صاحب اس قدر بے بسی کا اظہار کر رہے ہیں۔

سوال تو اُٹھیں گے۔
 

جاسم محمد

محفلین
سوال تو اُٹھیں گے۔
متفق۔ سوال تو اٹھ رہے ہیں کہ آیا یہ سب وزیر اعظم کی منظوری سے ہوا ہے یا ان سے معاملات سیغہ راز میں رکھ کر تیزی سے عمل در آمد کروایا گیا ہے۔ دونوں صورتوں میں نقصان عمران خان اور تحریک انصاف حکومت کا ہی ہوا ہے۔
 

ابوعبید

محفلین
شکر ہے عمران خان نے بل کی منظوری کے جواب میں مشہور ِ زمانہ فقرہ
نواز اور زرداری کرپٹ ہیں
نہیں کہا ۔ ورنہ جب سے حکومت وجود میں آئی ہے تب سے لے کر اب تک یہی رٹا رٹایا فقرہ کاپی پیسٹ کرتے رہے ہیں ۔
بہر حال قصور عمران خان کا بھی نہیں ہے ۔۔انہیں بھی ٹی وی دیکھ کر پتہ چلا ہے کہ ایسا کوئی بل اسمبلی میں پاس ہونے جا رہا ہے ۔
 
پنجاب اسمبلی اراکین کی تنخواہیں 2 لاکھ تک بڑھانے کا بل منظور

punjab-assembly-640x480.jpg



پنجاب اسمبلی کے اراکین نے تنخواہیں بڑھانے کا بل کل کمیٹی کے سپرد کیا جو کہ آج اسمبلی سے منظور کر لیا گیا۔

بل کی منظوری کے بعد اب ہر رکن اسمبلی کم سے کم 2 لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ وصول کرے گا جبکہ اسمبلی سیشن میں آنے اور دیگر مراعات اسکے علاوہ ہیں۔

پنجاب اسمبلی میں تنخواہ بڑھانے کا بل متفقہ طور پر آج منظور کیا گیا جبکہ بل کے حولے سے کوئی بحث ہوئی نہ کسی نے اعتراض اٹھایا۔

ارکان کی تنخواہ 83 ہزار سے بڑھا کر 2 لاکھ روپے کی گئی ہے جبکہ سیشن میں شرکت سمیت دیگر مراعات بھی علیحدہ سے ملیں گی۔

ارکان کا مطالبہ تھا کہ ان کی تنخواہ خیبرپختوا اسمبلی کے برابر کی جائے جو تقریباً ڈیڑھ لاکھ روپے بنتی ہے۔ ارکان کے مطالبے پر اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الٰہی نے صوبائی وزیر قانون کو تجاویز مرتب کرنے کی ہدایت کی تھی۔

واضح رہے کہ اراکین اسمبلی تقریباً ہر دور میں اپنی تنخواہوں میں اضافے کی قرار دادیں منظور کر چکے ہیں، سابقہ اضافہ ن لیگ کے دور میں 2016ء میں کیا گیا تھا
پنجاب اسمبلی اراکین کی تنخواہیں 2 لاکھ تک بڑھانے کا بل منظور
ان غرباء کے اخراجات بہت زیادہ ہوتے ہیں، تنخواہ یا مشاہرہ مزید بڑھنا چاہیے تاکہ یہ بھی غربت کے مسائل سے باہر آ سکیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
ان غرباء کے اخراجات بہت زیادہ ہوتے ہیں، تنخواہ یا مشاہرہ مزید بڑھنا چاہیے تاکہ یہ بھی غربت کے مسائل سے باہر آ سکیں۔
اچھا مذاق ہے۔ عوام کو سرکاری خزانے سے سبسڈی دے دو۔ وزرا اور عوامی نمائندگان کی تنخواہیں و مراعات ڈبل ٹرپل کر دو۔ اور جب خزانہ دیکھو تو مکمل خالی الٹا ماضی کی حکومتوں میں لئے گئے قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ اگر اس وقت ملک میں کوئی ایمر جنسی لگانے کی ضرورت ہے تو وہ صرف اور صرف معاشی ایمرجنسی ہے۔
 
Top