اقتباسات پورس کے ہاتھی (جنگ 1965 پر ڈراما) از نسیم حجازی

عباس رضا

محفلین
poras-ke-hathi.jpg

”پورس کے ہاتھی“ ان بنیوں اور برہمنوں کے سامراجی عزائم کی شکست کی داستان ہے جنہوں نے اٹھارہ سال کی تیاریوں کے بعد پاکستان کو ایک اور جونا گڑھ یا حیدر آباد سمجھ کر حملہ کیا تھا۔ یہ ایک ڈراما ہے اور اس کے کردار بھارت کے وہ چھوٹے اور بڑے منتری ہیں جو اقوامِ عالم کے سامنے اس جنگ کی ذمہ داری قبول کرنے سے پہلے اپنے ننگے اور بھوکے عوام کو اپنے سینا پتی کی عظیم فتوحات کی خبریں سنا رہے تھے۔ (نسیم حجازی)
”پورس کے ہاتھی“ امن اور انسانیت کے اس عظیم دشمن کی روح کی گہرائیوں میں جھانکنے کی ایک اور کوشش کا ما حصل ہے۔۔۔ ایک مختصر اور غیر سنجیدہ تحریر جسے پوری سنجیدگی کے ساتھ لکھا گیا ہے۔یہ چند قہقہے پاکستان کے ان جیالے سپاہیوں کے رہینِ منّت ہیں جن کی مسکراہٹیں جنگ کے ایّام میں پوری قوم کے لئے سرمایۂ حیات بن گئی تھیں۔ (نسیم حجازی)
ڈاکٹر رادھا کرشنن: بھارت کا راشٹر پتی (صدر)
لال بہادر شاستری: بھارت کا پردھان منتری (وزیر اعظم)
مسٹر چون: رکھشا منتری (وزیرِ دفاع)
گلزاری لال نندہ: وزیرِ داخلہ
مسز اندرا گاندھی: وزیر اطلاعات
کرشنم اچاری: وزیر خزانہ
جنرل چودھری: بھارت کا سینا پتی (برّی افواج کا کمانڈر ان چیف)
(اقتباس کا پس منظر: شکست کیوں ہوئی؟ اس پر برّی افواج کے کمانڈر ان چیف سے بھارت کے پردھان منتری اور دیگر منتریوں کی گفتگو ہورہی ہے۔ عباس رضا )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنرل چودھری: مہاراج! میری ناکامی کی وجہ یہ ہے کہ میں بھارت کی فوج کا سینا پتی ہوں اور بھارت کی فوج خالص بھارتی ہے اور بھارت کے مقابلے میں پاکستان کی فوج خالص پاکستانی ہے۔ اس لئے اگر ہمیں خالص بھارتی حملے کا خالص پاکستانی جواب ملا ہے تو آپ مجھے قصور وار نہیں ٹھہراسکتے۔ اگر آپ میری بجائے میری فوج کے افسروں اور سپاہیوں سے اس ناکامی کی وجہ پوچھ لیتے تو آپ کو میرا وقت ضائع کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔
چون: اور آپ کے افسر اور سپاہی کیا کہتے ہیں؟
جنرل چودھری: مہاراج! وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم نے یہ جنگ خالص فوجی اصولوں کے تحت لڑی ہے اور پاکستانی اتنے بے ڈھب ہیں کہ انہوں نے کسی محاذ پر بھی ان اصولوں کی پروا نہیں کی۔
شاستری: اور وہ اصول کیا ہیں جنہیں پلّے باندھ کر آپ نے بھارت کی عزّت خاک میں ملادی ہے اور جن سے بے پروا ہوکر پاکستانی فوج نے لاہور، سیالکوٹ اور قصور کو بچالیا ہے؟
جنرل چودھری: مہاراج! اگر آپ میرا مذاق اُڑانا چاہتے ہیں تو میں یہاں ایک منٹ بھی ٹھہرنا پسند نہیں کروں گا۔ لیکن اگر آپ معاملے کی تہہ تک پہنچنا چاہتے ہیں تو میں آپ کو سمجھا سکتا ہوں۔
چون: جرنیل صاحب آپ ہمیں سمجھانے کی کوشش نہ کریں۔ ہم اس معاملے کی تہہ تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ آپ کو یہ خیال بھی دل میں نہیں لانا چاہیے کہ ہم میں سے کوئی حیدر آباد اور گوا کے فاتح کے ساتھ مذاق کرسکتا ہے۔
جنرل چودھری: (قدرے مطمئن ہوکر) جنگ کا پہلا اصول یہ ہے کہ اگر مقابلہ کرنے والے کی پوزیشن کمزور ہو تو وہ ہمیشہ پسپا ہوکر ہتھیار ڈال کر اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرتا ہے اور حملہ کرنے والا ہمیشہ اپنی طاقت سے فائدہ اُٹھاکر اس وقت تک آگے بڑھتا چلا جاتا ہے جب تک اُس کے راستے میں کوئی خطرناک رُکاوٹ نہ آجائے۔ لیکن پاکستان کی فوج نے ہر محاذ پر اس اصول کی خلاف ورزی کی ہے۔ اس کی پوزیشن جس قدر کمزور ہوتی ہے، اسی قدر وہ جم کر لڑتی ہے۔ پاکستان کا سپاہی اس وقت بھی لڑتا ہے جب کہ اُسے چاروں طرف موت کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ ان کی پلاٹون ہماری کمپنی، اُن کی کمپنی ہماری بٹالین ہمارے بریگیڈ کے سامنے بھی ڈٹ جاتی ہے۔ ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ موت ان کے لئے ایک کھیل ہے۔ بموں اور گولیوں کی بارش کو وہ پھولوں کی بارش سمجھتے ہیں۔ پسپا ہونا اور ہتھیار ڈالنا تو اُنہیں سکھایا ہی نہیں گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ۔۔۔۔۔۔ (جنرل چودھری خاموش ہوجاتا ہے)
شاستری: جرنیل صاحب! آپ خاموش کیوں ہوگئے؟
جنرل چودھری: مہاراج! اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہم خود ہتھیار ڈالنے اور پسپا ہونے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
چون: اور آپ پسپا کیوں ہوتے ہیں؟ اگر پاکستانی موت کو کھیل سمجھتے ہیں تو آپ اُن کا شوق پورا کیوں نہیں کرتے؟
جنرل چودھری: مہاراج! بھارت کے سپاہی اس لئے پسپا ہوتے ہیں کہ وہ موت کو ایک کھیل نہیں سمجھتے۔
رادھا کرشنن: تو آپ کا مطلب یہ ہے کہ جب پاکستان کے سپاہی موت سے بے پروا ہوکر لڑتے ہیں تو بھارت کے سپاہی موت سے خوف زدہ ہو کر بھاگ اُٹھتے ہیں؟ یعنی پاکستان کے سپاہیوں کے حصّے کا خوف بھارتی سپاہیوں کے حصّے میں آجاتا ہے؟
جنرل چودھری: میرا یہی مطلب ہے مہاراج! جنگ کا دوسرا اصول یہ ہے کہ کسی فوج کو فتح کی امّید صرف اسی وقت تک ہوتی ہے جب تک اُس کے پاس دشمن کا مقابلہ کرنے کے وسائل موجود ہوں۔ لیکن پاکستان کے سپاہی ہمارا حملہ روکتے یا ہم پر حملہ کرتے وقت یہ سوچنے کی تکلیف بھی گوارا نہیں کرتے کہ ہمارے ٹینکوں کے مقابلے میں ان کے ٹینکوں اور ہماری توپوں مشین گنوں اور ہوائی جہازوں کے مقابلے میں ان کے ٹینکوں، توپوں، مشین گنوں اور ہوائی جہازوں کی تعداد کتنی ہے۔ وہ ہر حال میں آخری وقت تک اس امّید اور یقین کے ساتھ لڑتے ہیں کہ فتح صرف اُن کے لئے ہے۔ یہاں تک کہ وہ اپنی موت کو بھی فتح سمجھتے ہیں۔ اور آپ سب کو یہ سُن کر صدمہ ہوگا کہ۔۔۔۔ میرا مطلب ہے کہ آپ اپنے سینا پتی کی زبان سے یہ سننا پسند نہیں کریں گے کہ ۔۔۔ یہی اُمید اور یقین بالآخر ان کی شکست کو فتح سے بدل دیتا ہے۔۔۔۔ پھر ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔
رادھا کرشنن: پھر آپ کیا دیکھتے ہیں جرنیل صاحب؟
جنرل: کچھ نہیں مہاراج! میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا۔ اگر میں سچی بات کروں تو آپ مجھے پاگل خیال کریں گے۔ (شاستری کی طرف متوجہ ہوکر) پردھان منتری جی! اگر آپ بھارت کے سینا پتی ہوتے اور آپ یہ دیکھتے کہ آپ کے ٹینک لاہور کی سڑک پر بھاگے چلے جارہے ہیں۔ اور ان کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں۔ اور آپ کو یہ بھی معلوم ہوتا کہ لاہور صرف تیرہ چودہ میل دُور رہ گیا ہے تو آپ کیا سوچتے؟
شاستری: میں اپنی گھڑی کی طرف دیکھتا۔ پھر ٹینکوں کی رفتار معلوم کرنے کے بعد یہ اندازہ لگاتا کہ مجھے لاہور پہنچنے میں کتنے منٹ لگیں گے؟!
جنرل چودھری: مہاراج اگر آپ کی گھڑی پر صبح دس بجے کا وقت ہوتا اور آپ یہ دیکھتے کہ سڑک کے کنارے ایک لکڑی کا چھکڑا کھڑا ہے جس پر گھاس وغیرہ لدی ہوئی ہے۔ اور پھر اچانک آپ کو یہ معلوم ہوتا کہ لکڑی کا یہ چھکڑا فولاد کے ٹینکوں سے زیادہ خطرناک ہے تو آپ کی کیا حالت ہوتی؟
چون، رادھا کرشنن، شاستری: (ایک ساتھ) لکڑی کا چھکڑا؟؟؟
جنرل چودھری: ہاں جناب! لکڑی کا چھکڑا۔ آپ کو جنرل نرنجن پرشاد نے یہ نہیں بتایا کہ ہمارے دو ٹینک ایک لکڑی کے چھکڑے کی فائرنگ سے تباہ ہوئے تھے؟!
کرشنم اچاری: جنرل صاحب! اگر آپ مذاق نہیں کرتے میرا مطلب ہے کہ اگر لکڑی کا چھکڑا دو ٹینک تباہ کرسکتا ہے تو ہمیں سب سے پہلے چھکڑے جمع کرنے کی فکر کرنی چاہیے۔
چون: کرشنم اچاری ہر وقت بچت کے متعلق سوچتے ہیں۔ بھلا لکڑی کا چھکڑا ٹینک کیسے تباہ کرسکتا ہے؟
جنرل: مہاراج! میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ پاکستانی فوج کے کسی افسر نے ہمارے ٹینک دیکھے۔ اور ٹینکوں کے ساتھ اُس نے یہ دیکھا کہ ہماری انفنٹری آگے بڑھ رہی ہے۔
اندرا گاندھی: پھر کیا ہوا؟
جنرل چودھری: پھر اینٹی ٹینک گن نے یکے بعد دیگرے دو فائر کئے اور آن کی آن میں ہمارے دو ٹینک تباہ کردئیے۔ پھر باقی ٹینکوں کو آگے جانے کی جرأت نہیں ہوئی۔ اور مشین گن کی گولیوں کی بارش میں ہماری انفنٹری کو بھی پیچھے ہٹنا پڑا۔
شاستری: لیکن اینٹی ٹینک کا چھکڑے کے ساتھ کیا تعلّق تھا؟
جنرل چودھری: (بلند آواز سے) اینٹی ٹینک چھکڑے کے اُوپر لدی ہوئی تھی مہاراج! اور گھاس اُس کے اُوپر ڈال دی گئی تھی۔ صرف نالی کا آخری سِرا گھاس سے باہر تھا جو ہمارے سپاہیوں کو نظر نہیں آسکا۔
کرشنم اچاری: اور اس چھکڑے پر لدی ہوئی اینٹی ٹینک نے ہمارے دو ٹینک تباہ کردئیے؟
جنرل چودھری: ہاں مہاراج! یہ ایک انہونی بات تھی۔ میں نے دنیا بھر کی جنگوں کے حالات پڑھے ہیں لیکن میری نظر سے کوئی ایسا واقعہ نہیں گزرا کہ لکڑی کے چھکڑے سے فولاد کے ٹینکوں کو تباہ کرنے کا کام لیا گیا ہو۔ یہ ہماری خوش قسمتی تھی کہ ہمارے باقی ٹینک پیچھے ہٹ گئے۔ ورنہ پاکستانی شاید ہمارے ایک دو اور ٹینک تباہ کرڈالتے۔
کرشنم اچاری: اگر لکڑی کا چھکڑا اس قدر خطرناک ثابت ہوسکتا ہے تو ہمیں اتنے قیمتی ٹینک خریدنے کی کیا ضرورت ہے۔ ہم آپ کو ایک ٹینک کے بدلے پانچ سو چھکڑے دے سکتے ہیں۔ اس طرح ہم جنگ بھی جیتیں گے۔ اور زرِ مبادلہ بھی بچائیں گے۔ بھارت میں لکڑی کے چھکڑوں اور گھاس کی کمی نہیں۔
جنرل چودھری: چھکڑے تو بہت ہیں مہاراج! لیکن آپ ایسے آدمی کہاں سے لائیں گے جو بموں کی بارش میں کھڑے ہوکر اس قسم کی باتیں سوچ سکتے ہوں۔
شاستری: پاکستان ایسے آدمی کہاں سے لاتا ہے؟
جنرل چودھری: پاکستان ایسے آدمی باہر سے نہیں لاتا مہاراج! جس طرح کوئٹہ میں انگور، کشمیر میں زعفران اور قصور میں وہ سبزی۔۔۔ میں نام بھول گیا۔ وہ کون سی سبزی تھی نندہ جی۔۔۔؟
کرشنم اچاری: (اپنی ہنسی ضبط کرتے ہوئے) میتھی۔ (اندرا گاندھی ہنستی ہے اور باقی سب نندہ کی طرف دیکھتے ہیں۔)
جنرل چودھری: ہاں ہاں میتھی۔ نندہ جی کہتے تھے کہ میتھی بھارتے میں بھی اُگتی ہے لیکن قصور کی میتھی کا کوئی مقابلہ نہیں۔ اس کی چند سُوکھی پتّیاں بھی ہنڈیا میں ڈال دی جائیں تو سارا محلّہ مہک اٹھتا ہے۔۔۔ (نندہ کے سوا باقی سب ہنستے ہیں) اس میں ہنسنے کی کوئی بات نہیں۔ میرا مطلب یہ ہے کہ جس قصور میں خاص قسم کی میتھی پیدا ہوتی ہے۔ اسی طرح پاکستان میں وہ سپاہی پیدا ہوتے ہیں جو آخری وقت تک لڑتے ہیں۔ اور بدترین حالات میں بھی جنگ کا پانسا پلٹ دیتے ہیں۔
 
آخری تدوین:
Top