پولیو ورکرز پر حملے غیرشرعی ہیں،30 مفتیان کرام کا اجتماعی اعلامیہ

لاہور (پ ر) سنی اتحاد کونسل پاکستان کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا کی اپیل پر سنی اتحاد کونسل کے 30 مفتیان کرام نے اپنے اجتماعی شرعی اعلامیہ میں قرار دیا ہے کہ پولیو ورکرز پر حملے غیرشرعی اور اسلامی تعلیمات کے منافی ہیں، پولیو مہم میں رکاوٹ پیدا کرنا بدترین گناہ، سنگین جرم اور انسانیت دشمن عمل ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، بچوں کو عمر بھر کی معذوری سے بچانے کیلئے پولیو کے قطرے پلانا والدین کا شرعی، قانونی اور اخلاقی فرض ہے، پولیو کے قطرے پلانے میں دینی و شرعی اعتبار سے کوئی حرج نہیں کیونکہ پولیو ویکسین میں کسی بھی طرح کا کوئی حرام مادہ موجود نہیں بلکہ پولیو ویکسین انتہائی محفوظ دوا ہے، مذہب کی من مانی تشریح کے ذریعے پولیو کی مہم کے خلاف پرتشدد کارروائیاں خلاف اسلام ہیں، پولیو ورکرز ایک قومی خدمت سرانجام دے رہے ہیں اور صحت مند قوم کی تشکیل میں مثبت فریضہ کی ادائیگی میں مصروف ہیں جو گمراہ لوگ لاکھوں بچوں کے اپاہج بن جانے کے خطرات پیدا کررہے ہیں وہ اللہ کے عذاب کو دعوت دیتے ہیں۔ شرعی اعلامیہ میں والدین سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ منفی پروپیگنڈے کا شکار نہ ہوں اور بچوں کو موذی مرض اور زندگی بھر کی معذوری سے بچانے کیلئے انہیں پولیو کے قطرے پلائیں اور پوری قوم پولیو کے خاتمے کی مہم کو کامیاب بنانے کیلئے اپنا کردار ادا کرے، پولیو ویکسین معذور نہیں کرتی بلکہ معذوری سے بچاتی ہے۔ شرعی اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں 2013 میں 2012کے مقابلے میں پولیو کا شکار ہونے والوں کی تعداد بڑھی ہے، قابو نہ پایا گیا تو پاکستانیوں پر بین الاقوامی سفر کرنے پر پابندیاں عائد ہوسکتی ہیں۔ شرعی اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی تلاش کیلئے ڈاکٹر شکیل آفریدی کے استعمال نے پولیو کے خلاف مہم کو نقصان پہنچایا اور حکومت ابھی تک عوام کے ذہنوں سے یہ تاثر زائل کرنے میں ناکام رہی ہے کہ ایبٹ آباد میں جو کچھ ہوا اس کا پولیو سے کوئی تعلق نہیں۔ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ گذشتہ تین سال کے دوران 30سے زائد پولیو ورکرز کی شہادتیں قابل مذمت ہیں۔ انسداد پولیو مہم میں میڈیا، علماء، سیاسی کارکنوں، سول سوسائٹی اور سماجی تنظیموں سمیت سیکورٹی اداروں کو مشترکہ طور پر حصہ لینا ہوگا تاکہ قوم کے محفوظ اور صحتمند مستقبل کو یقینی بنایا جاسکے۔
http://beta.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=165771
 
کیا زمانہ آگیا ہے کہ علماء کو یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ یہ حملے غیر شرعی ہیں۔۔۔یعنی کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو ان حملوں کو شریعت کے عین مطابق سمجھتے ہیں :)
 
کیا زمانہ آگیا ہے کہ علماء کو یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ یہ حملے غیر شرعی ہیں۔۔۔ یعنی کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو ان حملوں کو شریعت کے عین مطابق سمجھتے ہیں :)
دہشت گرد یہ کہتے پھرتے ہیں کہ مغرب پولیو کے قظروں سے مسلمانوں کو بانجھ بنا رہا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
ان کے کہنے سے کیا فرق پڑے گا؟ اس سے پہلے تقریباً سبھی علماء کرام خود کش حملوں کو غیر شرعی قرار دے چکے ہیں۔
 

صرف علی

محفلین
کتنے بھولے ہیں یہ مفتی حضرات جو لوگ یہ کام کررہے ہیں وہ ان مفتی حضرات کو مسلمان ہی نہیں مانتے تو ان کے فتوای کا ان پر کیا اثر ہوگا
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

پوليو کے ضمن ميں کچھ افراد اور گروہوں کی جانب سے دانستہ ايک واضح سياسی مقصد کے حصول کے ليے بے بنياد خوف اور خدشات کا پرچار کيا جا رہا ہے۔ اس ضمن میں کچھ پريشان کن حقائق پيش ہيں

سال 2010 کے دوران پاکستان دنيا کا واحد ملک تھا جہاں پر اس بيماری سے اپاہج ہونے والے افراد کی تعداد ميں پہلے کے مقابلے ميں اضافہ ہوا۔ گزشتہ برس يہ تعداد 89 تھی جو ورلڈ ہيلتھ آرگائنيزيشن کے مطابق اس سال بڑھ کر 138 ہو گئ۔ ان اعدادوشمار کی روشنی ميں پاکستان ميں دنيا بھر کے مقابلے ميں پوليو کے سب سے زيادہ کيسز سامنے آئے ہیں۔

ان ميں سے زيادہ تر کيسز افغان سرحد کے پاس ان علاقوں ميں سامنے آئے ہيں جہاں ايک پاکستانی طالبان کمانڈر نے پوليو ويکسين کو غير شرعی قرار ديا تھا۔

مغربی ممالک سے پوليو کا خاتمہ کئ دہائيوں پہلے ہو چکا ہے ليکن پاکستان میں يہ اب بھی ايک وبا کی حیثيت رکھتا ہے۔ ايک مہلک اور اکثر وبائ نوعيت کی اس بيماری کا خاتمہ محض بچے کی زبان پر چند قطرے کڑوی دوائ کے رکھنے سے کیا جا سکتا ہے۔

يہ امر توجہ طلب ہے کہ سال 2003 ميں پوليو سے ويکسينيشن کے لیے اسی نوعيت کی ايک مہم کا آغاز کيا گيا تھا جس کے ردعمل ميں نائيجيريا ميں کچھ امام حضرات کی جانب سے اس مہم کے بائيکاٹ کا اعلان اس بنياد پر کيا گيا تھا کہ يہ مسلمانوں ميں ايڈز پھيلانے يا انھيں بانجھ کرنے کی مغربی سازش ہے۔ اس کے نتيجے ميں اگلے سال پوليو کا شکار ہو کر اپاہج ہونے والے بچوں کی تعداد ميں دگنا اضافہ ہو گيا جس کے بعد يہ خدشہ بھی پيدا ہو گيا کہ يہ بيماری آس پاس کے درجنوں ممالک ميں بھی پھيل جائے گی۔

سال 2008 تک جب پوليو کا شکار ہونے والے بچوں کی شرع ميں تين گنا اضافہ ہو گيا تو افريقہ کے اس گنجان آباد ملک ميں پوليو کے خلاف ايک نئ مہم کا آغاز کيا گيا اور اس مرتبہ کچھ مسلم علماء نے مسلئے کے حل کا ساتھ دينے کا فيصلہ کيا اور مقامی کميونٹی قائدين اور صحت عامہ کے ماہرين کے ساتھ مل کر اس جدوجہد ميں شامل ہونے کا فيصلہ کيا۔ ليکن اس وقت تک ہزاروں کی تعداد ميں معصوم بچے اس بيماری کا شکار ہو کر زندگی بھر کے لیے اپاہج ہو چکے تھے۔

يہ حقائق ان افراد کی آنکھيں کھول دينے کے لیے کافی ہيں جو امريکہ کی ہر کوشش پر تنقيد ضروری سمجھتے ہيں چاہے اس کے نتيجے ميں پاکستان ميں پوليو کے خاتمے اور مستقبل کی نسلوں کے بچاؤ کی کوششوں کو ہی نقصان کيوں نہ پہنچے۔

وقت کی ضرورت ہے ايک نفرت انگيز نظريے کے پرچار ميں اندھا ہونے کی بجائے پاکستان کے بچوں کی مدد کو مقدم رکھا جائے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

Pesh_workshop_blast.jpg
 

x boy

محفلین
کسی بھی پر امن قوم،لوگوں پر حملہ غیر شرعی اور جنگلی فیل فعل ہے
اسکا حساب کتاب ہونا چاہئے شوٹ دیم
 
آخری تدوین:
کسی بھی ویکسین کا ایک کورس ہوتا ہے ایک بار، دو بار، تین چار بار، جس کے بعد اس بیماری کے خلاف مدافعت پیدا ہو جاتی ہے۔ پولیو کے حفاظتی قطرے کتنی بار پی لینے سے ایک بچہ آئندہ اس سے محفوظ ہو جاتا ہے؟
کسی دوست کو علم ہو تو آگاہ کریں۔ شکریہ!
 
Top