قیصرانی
لائبریرین
یہ تو محفل پر پہلے بھی پوسٹ ہو چکا ہے۔ تاہم یہ معلوم نہیں تھا کہ اس جگہ سے لیا گیا تھا
یہ تو محفل پر پہلے بھی پوسٹ ہو چکا ہے۔ تاہم یہ معلوم نہیں تھا کہ اس جگہ سے لیا گیا تھا
یہ مضمون کئی رسائل وجرائد میں شائع ہوچکا ہے
درست کہا۔مسئلہ بالاخر یہی ہے کہ یہاں سائنسی موضوعات پر وہ شخص خامہ فرسائی کرتا ہے جو سائنسی علوم کی الف بے سے بھی واقف نہیں ہوتا۔
آپ غور سے پڑھیے۔یہ تحریر بنوریہ ٹاؤن کی رائے نہیں ہے بلکہ ان کے رسالے بینات میں شائع شدہ ایک مضمون ہے
بنوریہ ٹاؤن کا موقف ان کا یہ فتوی ہے
http://banuri.edu.pk/ur/node/737
درست کہا۔
لیکن صرف سائنسی علوم ہی کیا ، اس عظیم مدرسہ کی ویب سائٹ پر وہ تحریر بھی ہے جس میں شلوار قمیض کو اسلامی اور جینز سرٹ کو غیر اسلامی لباس ثابت کیا گیا ہے۔
اب بھی کوئی شک ہے ؟سوالمحترم مفتی صاحب !السلام علیکم !آج کل بچے کی پیدائش بعد ڈاکٹر انہیں کچھ قطرے پلاتے ہیں تاکہ بچے مختلف بیماریوں مثلا زیابطیس، پولیو، ٹی بی، وغیرہ سے سے محفوظ رہے، ان قطروں کا سلسلہ 5سے7 سال کی عمر تک جاری رہتا ہےمیں پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا اس طرح کےقطرے مسلمانوں کے لئے حلال ہیں یا حرام اور کیا ہم اپنے بچوں کو پلاسکتے ہیں یا ہیں ، براہ کرم وضاحت کےساتھ جواب دیں۔جزاک اللہ سائل :علی
جوابپو لیو وغیرہ مختلف قسم کی بیماریوں سے تحفظ کے لئے بچوں کو قطرے پلانا جائزہے۔ تاہم پولیو کے قطروں کے بارے میں بعض حضرات شکوک و شبھات کا اظہار کر چکے ہیں کہ ان قطروں کو پینے سے افزائش نسل پر اثر پڑتا ہے۔ اگر ان کی یہ تحقیق درست ہے ، تو پھر قطرے پلانے سے پرہیز کرنا چاہئیےفقط واللہ اعلمدارالافتاء جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی
غور سے پڑھ کر ہی تو کہہ رہا ہوں اس مضمون کے آخر میں سب سے نیچے بوکس میں لکھا ہوا ہے :آپ غور سے پڑھیے۔
اب بھی کوئی شک ہے ؟
پولیو کے خلاف ایک لمبا چوڑا مضمون
اور گونگلؤں سے مٹی جھاڑنے کے لئے مفتی صاحب کے شک و شبہ میں لتھڑی دو لائنیں۔ بہت خوب!
وہ ادارے کا موقف نہیں تھا۔ ادارے کے مولوی کا موقف تھا۔اس کا تو میں خود شاہد ہوں، چند سال قبل اورنگی ٹاؤن کے تبلیغی اجتماع میں شرکت کا موقع ملا تھا۔ وہاں مغرب کی نماز کے بعد جو وعظ دیا گیا اس کا نفسِ مضمون یہی تھا کہ پینٹ شرٹ کافرانہ لباس ہیں۔ اور ستم ظریفی یہ کہ میں اس وقت پینٹ شرٹ ہی پہنا ہوا تھا۔
معاملہ اس قدر واضح ہے کہ وضاحت میں جاتے ہنسی آتی ہے۔رسائل وجرائد میں ہر قسم کی رائے اور مضامین شائع ہوتے ہیں
ضروری نہیں کہ ادارہ ، اخبار ، رسالہ یا انتظامیہ اس رائے سے متفق ہو
آپ نے کچھ عجلت سے کام لیا اور نیچے حوالہ پر نظر نہ ڈالی
میں نے تلاش میں جاکر سرچ کیا تو فتوی سامنے نکل آیا
سو اگر آپ کو برا لگا تو معذرت خواہ ہوں
لیکن بہرحال پولیو کے قطرے پلانے کو فتوی میں جائز ہی کہا ہے انہوں نے
معاملہ اس قدر واضح ہے کہ وضاحت میں جاتے ہنسی آتی ہے۔
رسائل جرائد میں "ہر قسم" کی رائے اورمضامین شائع نہیں ہوتے۔ ایسا کچرا جرائد ہی میں ہوتا ہے۔ بچوں کے رسالے میں بھی ادارتی بورڈ چھان پھٹک کے معیار کے مطابق کہانی شائع کرتا ہے۔ ورنہ رسالے کی کوئی وقعت نہیں ہوتی۔
یہ تو پھر ایک مذہبی تحقیق مدرسہ کا جریدہ ہے جس کے دفاع پر آپ کمر بستہ ہیں۔
محترم بغیر کسی تحقیق کے والدین کو بین السطور بتایا جا رہا ہے کہ پولیو سے بچاؤ کے قطرے نہ پلائے جائیں کہ یہ تحقیق طلب مسئلہ ہے۔ اب اس دوران جتنے بچوں کو پولیو ہوا، اس کی ذمہ داری کس پر ڈالی جائے گی؟میں دفاع نہیں کررہا کسی کا بھی
تحقیق کی بنیاد پر بات کی ہے ، آپ نے ایک مضمون کو ادارے کی طرف منسوب کردیا جبکہ وہ مضمون کئی جگہ شائع ہوچکا ہے
ادارہ کی رائے اور فتوی الگ ہے جو میں نے پیش کردیا
باقی
رسائل وجرائد اور بچوں کی کہانیاں !!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!
کوئی مقابل نہیں دور تک
بلکہ بہت دور تک
واہ کیا تقابل کیا ہے آپ نے
تمام اخبارات و رسائل اور کالمی صفحات اور مراسلات پر ایک بوکس میں لکھا ہوتا ہے کہ ادارے کا مضمون نگار یا مراسلہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے
محترم بغیر کسی تحقیق کے والدین کو بین السطور بتایا جا رہا ہے کہ پولیو سے بچاؤ کے قطرے نہ پلائے جائیں کہ یہ تحقیق طلب مسئلہ ہے۔ اب اس دوران جتنے بچوں کو پولیو ہوا، اس کی ذمہ داری کس پر ڈالی جائے گی؟