پُل چرخی جیل کے دلچسپ کردار

الف نظامی

لائبریرین
پٹھان کا چلہ

۱۹۸۲ کے آخر میں خیبر ایجنسی سے تعلق رکھنے والے ایک سفید ریش بزرگ کو ہمارے ہمسائے میں آباد کیا گیا۔ عملہ ء زندان نے بتایا کہ بوڑھے آفریدی نے کئی دنوں سے کھانے کو ہاتھ نہیں لگایا۔ جیل کے منشی دن میں کئی کئی بار اس کے کمرے کا چکر لگاتے اور اُس سے پوچھتے:
بابا آخر بتا تو سہی تیرا مطالبہ کیا ہے؟

آفریدی اپنے ہی ڈھب کا بندہ تھا۔ اول تو وہ کسی سوال کا جواب نہ دیتا اور جب بولتا تو پوچھنے والے کو پانچ سات گالیاں بکنے کے بعد بہ شدت تمام دہاڑتا۔
اوے خر بچیا ، مغز خراب نہ کر۔ میں اپنے نفس کو قابو کر رہا ہوں۔

جیل کمانڈر ششدر کہ اس معاملے کو کیسے سیدھا کرے؟ جیل میں روٹی نہ کھانے سے مراد بھوک ہڑتال ہے اور ادھر بوڑھا پٹھان کسی مطالبے کے بغیر بھوک ہڑتال کیے لیٹا تھا۔ کمانڈر کو یہ خوف بھی دامن گیر تھا کہ اگر کہیں وہ مر گیا تو قیدیوں میں خواہ مخواہ بے چینی اور اشتعال پیدا ہو جائے گا۔ آفریدی نے ٹھیک پندرہ روز چلہ کاٹنے کے بعد نقاہت بھری آواز میں "یاہو" کا نعرہ لگاتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ اُس نے اپنے نفس میں چھپے شیطان کو زیر کر لیا ہے۔ اُس نے روٹی طلب کی جسے کھانے کے بعد زمین پر تین بار لاٹھی برسائی اور کہا:
مجھے یہاں سے دوسری جگہ چلے جانے کا "حکم" آ گیا ہے۔ پرسوں صبح میں یہاں سے جا رہا ہوں۔

پہرہ دار اس کی داسوختہ مزاجی سے باخبر تھے۔ اس لیے یہ سوچ کر زیر لب مسکرا دئیے کہ بھوک ہڑتال نے اس کے دماغ کو متاثر کر دیا ہے۔ ٹھیک تیسرے دن اُس نے اپنا تھیلا اٹھایا اور جھپاک سے باہر نکل گیا۔
گیٹ پر کھڑے پہرہ دار نے اُسے روکا
بابا ۔ کدھر؟
"بس ذرا جلال آباد تک"
پہرہ دار اُسے گھسیٹ گھساٹ کر واپس لائے۔ اسکالا (فرانسیسی قیدی)نے فورا دست تعاون بڑھا دیا اور اسے اپنے کمرے میں لے گیا۔ ان دنوں وہ اپنے کمرے میں تنہا بند تھا۔ دوسری طرف عملہ ء زندان بھی خوش کہ چلو دونوں سے جان چھوٹی۔ اسکالا نے ادھر اُدھر سے مانگ تانگ کر مختلف اشیا خورد و نوش کا ایک ذخیرہ اپنی چارپائی تلے جمع کر رکھا تھا۔ جوں ہی اسکالا کی آنکھ لگی آفریدی نے جھک کر کشمش کا ایک تھیلا نیچے سے باہر کھینچ لیا۔ آفریدی مزے سے کشمش کھا رہا تھا کہ اُدھر اس زود بیدار کی آنکھ کھل گئی۔ وہ آفریدی پر دھاڑا لیکن وہاں کسے پرواہ۔ بالآخر وہ ایک دوسرے سے تھیلا چھیننے کی کوشش میں گتھم گتھا ہو گئے۔ ہم ساتھ والے کمرے میں تھے اچانک ایک شور اٹھا۔ جرمن اور پشتو میں ایک دوسرے کو جھاڑنے اور دھمکیاں دینے کی بلند آوازیں اُبھریں۔ دوڑ کر پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ بوڑھا آفریدی چیتے کی مانند مال غنیمت پر جھپٹ رہا ہے مگر اسکالا کسی طور اسے کشمش کا تھیلا دینے پر آمادہ نہیں۔ آفریدی نے قریب پڑی لکڑی اٹھائی اور اسکالا کی پیٹھ پر دے ماری۔ محمود اور میں نے بمشکل انہیں ایک دوسرے سے دور کیا۔ آفریدی غصے سے دھاڑا:
"فرنگی کے بچے! یہ کشمس تیرے ملک سے تو نہیں آئی۔ یہ یہاں کی مٹی میں پیدا ہوئی ہے تو ہوتا کون ہے اس پر حق جمانے والا اوے خنزیرا !"

ہم نے اسکالا کی جان بمشکل اس بلا سے چھڑائی۔ اُسے لاٹھی کی ضرب سے کہیں زیادہ اس بات کا دکھ تھا کہ آفریدی اس کے محفوظ ذخائر کا توازن خراب کر گیا۔ پہرہ داروں نے آفریدی کو قید تنہائی میں ڈال دیا مگر اس پٹھان درویش کو بھلا اس قسم کی سزا سے کیا فرق پڑتا؟ وہ رات بھر کمرے کی دیواروں پر لاٹھیاں برساتا رہتا اور جب پہرے دار اسے منع کرتے تو وہ ایک ہی جواب دیتا:
"میں شیطان کو اس جیل سے بھگا رہا ہوں"

قبر کی آغوش (افغان جیل پل چرخی میں بیتے لمحات کی روداد) از راجا انور ، صفحہ 114
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
آنے دے --- کابل اُتے ---
کابل میں زلزلے کے جھٹکے معمول کی بات ہے۔ 1980ء کے زمستان میں یا تو زلزلے معمول سے کچھ زیادہ آئے یا پھر وہ مجھے اطاقِ زندان میں کچھ زیادہ محسوس ہوئے۔ میں ان دنوں نظات خانہ ء صدارت کی دوسری منزل پر مقید تھا۔ زلزلے کا جھٹکا تو ایک بار آتا لیکن اس عمارت کی کچی دیواریں اور ان پر لکڑی کی چھت کئی کئی منٹوں تک کپکپاہٹ اور بلبلاہٹ کی کیفیت میں مبتلا رہا کرتی۔ دیواروں کے جبڑے پہلے ہی متبسم حالت میں ذرا کھلے تھے لہذا جب ان پر لرزہ طاری ہوتا تو شش جہات سے کڑکڑاہٹ کی خوفناک صدائیں اُبھرنے لگتیں۔ شش جہات اس طرح کہ میرا کمرہ دوسری منزل پر واقع تھا۔ لہذا پاوں تلے بھی یہی رقص جاری ہو جاتا۔ پہرہ دار پہلے جھٹکے پر ہی قیدیوں کو سپردِ خدا کرتے اور خود نیچے کھلے صحن کی جانب ہوا ہو جاتے۔ افغان جل تو جلال تو آئی بلا کو ٹال تو جیسا کوئی طویل ٹوٹکا دہرانے کے بجائے اللہ اکبر اللہ اکبر کا ہوکا بھرتے۔
دوسری منزل کے دوسرے یا تیسرے کمرے میں مری کے رہنے والے ایک سائیں بادشاہ آباد تھے۔ جب زلزلے کا حھٹکا سنسنا کر گزرتا تو وہ اپنے کمرے سے دھاڑتے
آنے دے ایس پہاڑ نوں --- کابل اُتے --- آنے دیس۔
جب تک لرزہ طاری رہتا وہ "آنے دیس" کی گردان جاری رکھتے۔ آنے دیس کا اصل قصہ یہ تھا کہ حضرت کے اطاقچے کے عقبی روشن دان سے بالا حصار کے پہاڑ کا صرف وہ حصہ نظر آتا جہاں مغل بادشاہ بابر کی ویران قبر آج نشانِ عبرت ہے۔ اگرچہ زلزلے سے ان کا کمرہ لرزتا تھا لیکن سائیں بادشاہ یہ سمجھتے کہ سامنے والا پہاڑ ہل رہا ہے۔ چناچہ اس مبارک لمحے وہ اس اُکھڑے ہوئے پہاڑ کو کابل پر گرنے کی ترغیب دیا کرتے۔

سائیں بادشاہ کراچی میں کہیں چھوٹی موٹی ملازمت کرتے تھے۔ ان کے بقول انہیں مدینے سے بلاوا آگیا۔ اس لیے انہوں نے نوکری چھوڑ دی اور جنگ میں شائع ہونے والے ٹنڈر جمع کرنے لگے۔ جب ان کے پاس دس بارہ سو اشتہارات کا ذخیرہ اکٹھا ہو گیا تو ایک دن انہوں نے یہ مواد پوٹلی میں باندھا اور کسی ویزے پاسپورٹ کے بغیر حج پر روانہ ہو گئے۔ وہ کہیں سے خاد کے ہاتھ لگ گئے اور یوں پھرتے پھراتے اس جنکشن پر آن اٹکے۔ کامریڈ ان سے سچ اگلوانے کے لیے انہیں گھنٹوں برف پر کھڑا رکھتے مگر ان کے اندر کوئی کھوٹ تھا ہی نہیں تو نکلتا کیا۔ ان کے پروٹوکول افسر کو پنجابی نہیں آتی تھی چنانچہ اس نے دو چار بار مجھے ترجمے کے لیے بلوایا تو معلوم ہوا کہ یار لوگوں نے ان کی پوٹلی سے برامد ہونے والے اشتہاروں کو ان کے خلاف جاسوسی کی سب س بڑی شہادت فرض کر رکھاہے۔ میں نے مشتے نمونہ از خروارے کے مصداق دو چار اشتہارات کا رواں فارسی میں ترجمہ کیا تو پروٹوکول افسر اپنا سر ہاتھوں میں تھام کر بیٹھ گیا۔ شاید خدائے مہربان کو اس غریب کی یہ چھوٹی سی مدد میرے نام لکھی تھی کہ اس ترجمے کے بعد پروٹوکول افسر نے اپنے افسران بالا کو اس کی رہائی کی تحریک دی اور ایک دن افغان اسے طورخم کی سرحد پر چھوڑ آئے۔
 
Top