پچھلی باتوں کو بھول جاؤ عظیم
رو چکے خون، مسکراؤ عظیم
اپنی ہی جان کے ہو دشمن خود
یہ محبت ہے باز آؤ عظیم
آ گئے دو ٹکے جو لے کر شہر
پوچھا بھی چاہتوں کا بھاؤ عظیم
پھر نئے زخم ڈھونڈنے نکلے
بھر نہ پائے ہیں پچھلے گھاؤ عظیم
پڑ گیا ہے جو قحط آنکھوں میں
دل کو پتھر تو مت بناؤ عظیم
کب نہ جانے ہمارا آئے وقت
چل رہا ہے جو چل چلاؤ عظیم
ناخدا جن کا ہو خدا ہی آپ
پار لگتی ہے ان کی ناؤ عظیم
دسمبر 6، 2016
آخری تدوین: