عمومی طور پر ہم جس رویئے کی شکار ہیں ۔ اس کی بدولت ہمارا طرہِ امتیاز صرف یہی ہے کہ خود سے نظر بچا کر دوسروں کو اپنی ہر برائی کا ذمہ دار ٹہراتے ہیں ۔ مغرب سے درآمد اپنی من پسند چیزوں پر بلا چون چرا کیئے اپنانے میں ہم کوئی تامل محسوس نہیں کرتے ۔ اور جہاں ہم سمجھتے ہیں کہ یہاں ہمیں اس چیزکی قعطاً ضرورت نہیں اسے غیر اسلامی اور غیر شرعی قرار دے کر اس چیز کی مکمل طور پر نفی کردیتے ہیں ۔ جہاں جس چیز کی نفی کررہے ہوتے ہیں وہاں اس معاشرے کی بھی نفی کردیتے ہیں ۔ جہاں سے یہ چیز درآمد ہوتی ہے ۔ مگر جب جب ہم اپنی من پسند چیزیں سمیٹ رہے ہوتے ہیں ۔ وہاں پر ہمیں اس معاشرے میں کوئی عیب نظر نہیں آتا ۔ یہ بلکل دورخی رویہ ہے ۔ کھلی منافقت ہے ۔ میں نے اسی ڈبل اسٹینڈرڈ کو سامنے رکھ کر کسی ٹاپک پر مغرب سے درآمد ایجادات سے مستفید ہونے اور پھر اسی معاشرے سے کچھ تہوار اور ثقافتی چیزوں کے خلاف اسی معاشرے کو تنقید کا نشانہ بنتے ہوئے دیکھ کر کچھ مثالیں دیں تھیں ۔ اسے کچھ دوستو نے یا تو سمجھا نہیں یا پھر اپنی کوئی بھڑاس نکالی ۔ میں نے ایک اور بات کہی تھی کہ جب آپ اپنے محسنوں کیساتھ اچھا سلوک روا نہیں رکھ سکتے تو جن کی سائنس اور ٹیکنالوجی سے آپ مستفید ہو رہے ہیں تو وہ آپ سے کیا توقع رکھ سکتے ہیں ۔ اپنے محسنِ پاکستان کا حال دیکھئے ۔ اس کی باتیں سنیں اور سر دھنیں۔ شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہے ۔ مگر ہم یہاں بھی ڈھٹائی سے یہی کہیں گے کہ اس میں ابھی امریکہ کا ہاتھ ہے ۔ اور اس سلسلے میں خود آپ کی کیا ذمہ داری ہے ۔اس سے کسی کو سروکار نہیں کہ یہاں فائد ہ ہی کیا ہے ۔ ایک شعر سنا کرتے تھے کہ '
پڑی اپنے عیبوں پر جو نظر تو نگاہ میں کوئی برانہ رہا
مگر یہاں معاملہ ڈھٹائی کا ہے ۔۔۔۔
پڑی اپنے عیبوں پر جو نظر تو نگاہ میں کوئی برانہ رہا
مگر یہاں معاملہ ڈھٹائی کا ہے ۔۔۔۔