نمرہ
محفلین
خدا نے انسان کو عجیب صورت میں بنایا ہے۔ کہیں خیمہ گاڑ رہے تو ایسے رہتا ہے گویا قرنوں سے وہیں گوشہ نشین ہو ۔ اور اگر چوبیں اکھاڑ گٹھری کاندھے پر لاد ہاتھ جھاڑ کراٹھ کھڑا ہو تو اپنا دل بھی ساتھ اٹھا کر چل پڑتا ہے۔
خیر چل پڑنے کے باب میں ہم حسب عادت کچھ مبالغہ آرائی کر بیٹھے ہیں۔ دل ایک مرتبہ کہیں لگ جائے تو پھر ہزار آسانی سے اور ڈیجیٹل طریقے سے یعنی یکایک اٹھے مگر اس کا کچھ نہ کچھ حصہ وہیں رہ جاتا ہے۔
اس زمانے میں جب ہم امیدیت پسندی کے نئےنئے پنکھے ہوئے تھے اور ایگزیسٹینس پریسیڈس بینگ سے متاثر ہو کر خود کو تبدیل کرنے پر غور فرمایا کرتے تھے تو اس وقت بھی شہر چھوڑنے کے ضمن میں وہی بیس پچیس سال پرانا خیال رکھتے تھے کہ اماں کے گھر سے بیس پچیس کلومیٹر محیط کے دائرے سے باہر کوئی کیونکر رہے اور زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ کیوں رہے۔ جب یہ امر طے شدہ ہے کہ انسان کی زندگی میں ان سے زیادہ اہم کچھ بھی نہیں ہوتا تو پھرایک بھی دن کیوں دور گزارا جائے۔ یوں بھی خدا کی مخلوق میں سے ہم صرف اماں کی بات مانا کرتے ہیں اور اس معاملے میں تو ان کی بھی ماننے کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا۔
ایک اور خیال جو بعد میں خام ثابت ہوا، یہ تھا کہ پنڈی بوائز کے ٹپیکل فیشن میں ہم پنڈی کے ساتھ عرف عام میں سیٹ ہیں اور پنڈی ہمارے ساتھ۔ لیکن لوح نصیب پر جال شاید ہر طائر کے ذوق اور پنجے کی ہئیت کے مطابق ڈیزائن کیے جاتے ہیں۔ ہمیں بھی خطرناک حد تک مغالطہ ہو گیا کہ ایک یونیورسٹی کو نظر میں رکھ کر ہمیں تخلیق کیا گیا ہے اور اس مارے آج تک اس کے شہر کا نام ایسی عقیدت سے لیتے ہیں کہ کافی لوگوں کو شک ہے کہ معاملہ آخر ہے کیا۔
کچھ عرصہ قبل ہم اپنی ایک دور والے مشرق کی دوست سے استفسار کر رہے تھے کہ یہ کب آس حضوری ہو، کب سادھنا پوری ہو، کب کلیاں بیلے کی ہم سجنی کو پہنائیں والے شعر میں سادھنا کا کیا مفہوم ہے۔ یہاں تک تو ہم دونوں متفق تھے کہ پہننے پہنانے کے لیے کوئلے سے ہیرے تخلیق کیے جاتے ہیں، البتہ سادھنا کے مفہوم پر ذرا بحث ہو گئی۔ انھوں نے ہمیں مطلب سمجھانے کی کوشش کی جو کچھ زیادہ کارآمد ثابت نہیں ہوئی ۔ یاد تو ہم یوں بھی کچھ نہیں رکھا کرتے لیکن وہ کچھ ایسا کہہ رہی تھیں کہ اس سے مراد ہے، بہت ہی اونچے درجے کی تمنا۔
ہم نے سوال کیا، تو کیا فلاں یونیورسٹی ہماری سادھنا ہے؟
کہنے لگیں، نہیں نمرہ، اگر وہ تمھاری سادھنا ہوتی تو اس وقت تم وہیں ہوتیں۔
اب ہم کیا کریں کہ ہماری کہانی میں ظالم سماج کا کردار ہمیشہ داخلہ کمیٹیاں اور ادارتی بورڈ ادا کیا کرتے ہیں۔
خیر سادھنا وغیرہ سے قطع نظر ہم اس جگہ کی راہداریوں میں جھاڑو لگانے کے بھی قابل نہیں مگر انسان کو سردیوں کی شاموں اور گرمیوں کی دوپہروں میں اداس پھرنے کو ایک نام بھی درکار ہوتا ہے۔ اس یونیورسٹی کو تو آج تک خبر نہیں ہو سکی کہ ہم وجود رکھتے ہیں اور صرف اسی کے لیے اور اگر تصویر پرستی کے قائل ہوتے تو اس کے داخلی دروازے کی تصویر فریم کرا کے صبح شام اپنے دوپٹے سے اس کی گرد جھاڑا کرتے۔
لیکن یہ ضرور ہوا کہ اس یونیورسٹی سے لفٹ لینے کے چکر میں ہم ایک اور جگہ اٹک گئے جو کہ ہمارے پسندیدہ دائرے سے ذرا باہر واقع ہوئی تھی۔
بات وہیں آ کر پہنچی ، یعنی کہ دور۔ تو پھر یہاں ہمیں اپنے دو خیالات میں سے ایک کی قربانی بادل نخواستہ دینا پڑی۔
خیر یہ بھی ہم نے چپ چاپ تو نہیں دی بلکہ بہت سی پیشن گوئیوں کے ساتھ دی کہ شاید ہم دنیا کے پہلے انسان ہوں جو ہوم سکنس کے مارے انتقال کر جائے۔ بڑی بات ہے کہ اس قسم کی پیشن گوئیوں کے باوجود بھی ہمیں بھیج دیا گیا ۔ کچھ یہ بھی تھا کہ اس یونیورسٹی کو انکار کرنے کی ہمیں تاب نہیں تھی۔
غریب الدیار ہونے سے قبل ہمارا اس کیفییت سے تعارف فقط بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے کی حد تک تھا اور ہم کبھی کبھار کسی تجربہ کار انسان سے پوچھتے تھے تو ہمیں عجیب و غریب جواب ملا کرتے تھے اور ہم نے ارادہ کر لیا تھا کہ خدا نے موقع دیا تو نثر نگاروں کے رواج کے مطابق اس پر مقالہ تحریر کریں گے۔
لیکن صاحبو، غریب الوطنی کا احساس اس قدر سبلائم اور ایتھرئیل ہے کہ اسے شعر میں باندھنا بھی بڑا کٹھن کام ہے۔ نثر میں تو خیر یوں بھی لطافت کا خون ہو جاتا ہے۔ میر کے شعر کا معاملہ یوں ہے کہ وہ ہمیں کچھ یوں بھی موقع بے موقع یاد آتے ہیں اور پھر یہ بھی کہ ہمیں تو اپنے شہر میں بھی کوئی نہیں پوچھتا تھا خصوصا بے روزگاری کے دنوں میں تو پھر دیس پردیس کی تخصیص کیسی۔ بے روزگاری کا ٹکڑا یوں لگانا پڑا کہ روزگار میں ڈیڈ لائنیں بھی ہوتی ہیں اور ڈیزائن میں بگز بھی جن سے پالا پڑنے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ غم عشق گر نہ ہوتا غم روزگار ہوتا کا نکتہ سمجھنے والے سستے میں چھوٹ گئے۔
حفیظ سے ہمیں اختلاف ہے کہ غریب الوطنی کا احساس ہمارے نزدیک تو دھوپ کی تمازت جیسا نہیں بلکہ تاریکی کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے یا وائڈ کی مانند ہے جو کیا دھوپ کیا چھاؤں، ہر جگہ انسان کے ساتھ ساتھ پھرتا ہے پردیس میں۔ یہاں پردیس سے مراد ہر وہ جگہ ہے جہاں انسان اپنے جاننے والوں سے دور ہو ورنہ دیوجانس کلبی کی طرح ہمیں بھی سرحدوں کے کانسپٹ کی حقیقت سمجھنے میں مشکل ہوتی ہے۔
یوں تو ہر انسان کے تجربات کا ایک بڑا اور اہم حصہ اس کی شخصیت پر بھی مبنی ہوتا ہے اسی لیے کسی کا ہماری رائے سے اتفاق کرنا ضروری نہیں۔ ہم نہ تو احساسات کے زیادہ قائل ہیں ، نہ غریب الوطنی کے اور نہ ہی اتفاق کے۔ مشرق کے مکینوں کا دل عرصے سے مغرب میں اٹکتا آیا ہے اور اس میں بھی کوئی تعجب نہیں۔ غریب الوطنی میں بہت سے معاملات مشترک ہوتے ہوں گے مگر مشرق ہنوز مشرق ہے اور مغرب مغرب لہذا ہماری رائے کو اوقیانوس پار کرنے کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔
اوقیانوس پار کرنا یوں اچھا ہے کہ اس میں گھر والوں کو اس قسم کے جملوں سے بلیک میل کرنے کا خاصا سکوپ ہےمثلا ہمیں تو اٹھا کر اوقیانوس کے پار پھینک دیا گیا ہے مگر اس پار کرنے میں انسان کی جان آدھی رہ جاتی ہے امیگریشن کے ٹنٹنے کے علاوہ بھی۔ سچ یہ ہے کہ ہمیں بوسٹن اور پیساڈینا سے غائبانہ عقیدت تھی اور اس حد تک غائبانہ کہ ہم نے کبھی دنیا کے نقشے پر انھیں ڈھونڈنے کی زحمت نہیں کی مگر جب ہمیں حکم نامہ موصول ہوا کہ بی بی اپنا بوریا بستر باندھیے اور اس یونیورسٹی میں اتر کر کھولیے تو نقشے پر اس کی جائے وقوع ڈھونڈنے میں دل کو ذرا پریشانی ہوئی۔ مطلب یہ کہ نقشے پر اس سے بعید کچھ بھی نہیں سوائے کینیڈا کے، مطلب کہ اگر انسان کو اترنا ہی ہو تو کسی قریب کی جگہ اترے بھئی۔ افسوس ہے کہ اس قدر ترقی کے باوجود ابھی تک ٹیلی پورٹیشن کا کوئی طریقہ نہیں۔
یونیورسٹی ہماری یوں تو اچھی ہے مگراس کے نام سے عموماً لوگ واقف نہیں ہوتے۔ اپنے شہر کو کیا الزام دیں، برکلی سے کسی کا تبصرہ معلوم ہوا جس کے مطابق اس غریب کو کسی قسم کا تربوز سمجھا گیا تھا۔ خیر جواب دینے والے کہ قیامت کی زباں رکھتے ہیں، کہے بغیر نہیں رہ سکے کہ یو سی تو یونیورسٹی سینٹر ہوا کرتا ہے، کسی درسگاہ کا نام تھوڑا ہی ہے۔ لیکن ہمیں یہاں سب کچھ اچھا لگتا ہے سوائے کم سے کم نیند کے ساتھ فنکشن کرنے کی دوڑ کے جو شب و روز جاری رہتی ہے۔ گردش زمانہ کی زد میں جب آتے ہیں تو پچیس تیس پیہم گھنٹے ہم بھی لگاتے ہیں لیکن یہ اوائل سمسٹر سے ہی سپر ویمپائر بننے کی تک سمجھ میں نہیں آتی۔ خیر یہ بھی سچ ہے کہ اس کے بعد امتحانوں کے پرچے بھی ہماری سمجھ میں نہیں آتے لیکن ابھی تعطیلات کے گزرنے کے باعث ہمارے ہی الفاظ میں رت سہانی چل رہی ہے اور ہم ایسے موضوعات سے پرہیز کریں گے۔ یہاں ہمیں واقعی پاس ہونے کے لالے پڑے ہوتے ہیں مگر اگر ہمیں ہزار بار بھی موقع دیا جائے تو ہم یہیں آنا پسند کریں۔ اے کاش جانتا نہ تری رہگزر کو میں۔ شہر بھی یوں پسند ہے کہ ہمارا ہم مزاج ہے، قدیم اور خاموش۔
اپنے اردگرد کو پسند کرنے کی انسانی ٹینڈینسی سے قطع نظر اپنی یونیورسٹی ہمیں یوں بھی اچھی لگتی ہے کہ اس میں قینچی چپل پہن کر بس کے پیچھے دوڑا جا سکتا ہے، لیٹ اٹ گو کا راگ الاپتے ہوئے۔ یہاں یہ واضح کرتے چلیں کہ اٹ کا مشارالیہ بس ہرگز نہیں ہوا کرتی۔ یہ ضرور ہے کہ پھر ہرگز ضروری نہیں کہ اس بس میں ہمیں کھڑا دیکھ کر کوئی اٹھ کھڑا ہو لیکن زندگی آپٹمائزیشنز کا نام ہے اور ہم یوں ہی خوش رہتے ہیں۔ ٹھیک ہے کہ اس شہر میں اپنا فرنیچر خود ہی سڑکوں پر گھسیٹنا پڑتا ہے مگر اسے ہم کہیں زیادہ سہل پاتے ہیں بہ نسبت انسانی تعلقات گھسیٹنے کے۔ خیر یہ بھی ہے کہ فرنیچر بے زبان ہوا کرتا ہے۔ انسانوں کی بے مروتی ہم تو شاید مجھے ازل سے وفا سے گریز تھا، شاید قصور اس میں تمھارا بھی کچھ نہیں کہہ کر جھٹک دیتے ہیں لیکن دوسرے لوگ ہمیں اتنی رعایت دینے پر تیار نہیں ہوتے۔
تمہید کا مقصد فقط یہ اعتراف کرنا تھا کہ ہماری رائے مبنی بر تعصب ہو سکتی ہے مگر وہ کس انسان یا مشین کی نہیں ہوتی۔ بس کبھی کبھار خیال آتا یے کہ لیٹ اٹ گو کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ انسان کو خالی ہاتھ رہنے کی خو ہو جاتی ہے اور اسے کچھ بھی ہاتھ سے چھوڑتے ہوئے تامل نہیں ہوتا۔ گھر کا رستہ تو انسان گوگل میپ میں محفوظ کر لے لیکن نگری نگری پھرنے سے گھر کا تصور بھی کہیں راستے میں ہی رہ جاتا ہے۔ کرانک خانہ بدوشوں کو پھر کبھی گھر راس نہیں آتے اور اپنی چار چیزوں کی پوٹلی کے علاوہ کچھ بھی اپنا محسوس نہیں ہوتا۔ یہاں یہ بحث بھی کی جا سکتی ہے کہ انسان اپنے آپ کو کسی خانے اور لیبل میں قید کرے ہی کیوں اور اس کی حمایت میں اقبال کا شعر لایا جا سکتا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہر ملک ہمارا ملک ہے لیکن صاحبو، آئیڈینٹیٹی اور بیلانگنگ اور آنٹی گریشن کے مسائل بڑے پیچیدہ ہیں اور ہماری سعی سے سلجھنے سے رہے جبکہ ہمیں ویکٹر کیلکلس تک نہیں آتا۔
سرکاری طور پر ہماری جلاوطنی کا مقصد تعلیم حاصل کرنا ہے مگر سچ یہ ہے کہ ہمارا دل تعلیم حاصل کرنے کے علاوہ آوارہ گردی سے لے کر خانہ داری تک ہر شے میں لگتا ہے کہ دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت۔ مؤخرالزکر کے باب میں تو ہم اس قدر طاق ہو چکے ہیں کہ سست الوجود افراد کے لیے کم ترین ریزیسٹینس سے گھر چلانے پر ایک مینوئل لکھ سکتے ہیں جو کچھ تو اپنی سستی کے مارے نہیں لکھتے اور کچھ اپنی اماں کے ڈر سے۔ خاطر غزنوی پھر بھی خوش نصیب تھے کہ فقط ویرانے ساتھ لیے پھرتے تھے، ہمارے ہمراہ تو ہمیشہ انتشار اور بدنظمی کا طوفان رہتا ہے۔ کسی کامک سے اٹھائی ہوئی بات ہے مگر اپنے دل کی آواز معلوم ہوتی ہے کہ کھانا پکانے میں چھ گھنٹے لگتے ہیں، کھانے میں تین منٹ اور برتن دھونے میں سات دن اور سات راتیں۔ یہاں اپنی اماں کا گھر یاد آتا ہے جہاں ایک ان کہا اصول تھا اور طبیعات کے قوانین جتنا محترم کہ برتن دھونے سے ہمارے ہاتھ خراب ہو جائیں گے جن سے ابھی ہمیں کچھ طنزیہ مضامین تحریر کرنے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ ڈھنگ کے مصنفین کے برعکس ہماری موٹیویشن فقط اتنی ہوا کرتی ہے کہ ان تمام افراد اور اداروں سے بدلہ لے سکیں جن سے بدلہ لینے کی اور کوئی صورت نہیں۔ یہ مزید اور ہے کہ درویشوں کے قہر کی طرح ان کی تحریریں بھی ان کی اپنی جان پر گرتی ہیں یعنی فقط لکھنے کی ہوتی ہیں، پڑھنے کی نہیں اور وہ بھی اکثر اسی وقت جب کوئی ضروری کام سر پر لہرا رہا ہو۔
بات یہ ہے کہ کھانا پکانا اس قدر محنت طلب کام ہے کہ اس کے مارے ہم کھانا کھانا ترک کر سکتے ہیں اور کر دینا چاہیے۔ پھر کھانا پکانے والے کا نیٹ انرجی گین تو لازما منفی ہوا کرتا ہے، ویج گیپ کی بحثوں کے علاوہ بھی۔ اس سے بہتر ہے کہ انسان اتنی دیر میں شعر کہہ ڈالے، کم از کم ان کے پھیکے نکلنے پر اتنا افسوس تو نہیں ہوتا۔ خدا اس شخص سے سوال کرے جس نے آگ دریافت کر کے ہمارے آباؤ اجداد کی کچے کھانے کی عادت ختم کروا دی۔ انسانوں کو بھی پٹرول پر چلنا چاہیے، آخر کاریں بھی چلتی ہیں اور کیسی خوبصورت ہوا کرتی ہیں۔ اب جمالیات کے پیچھے ایفیشینسی کا خون ہوتا ہو تو ہوتا رہے۔ فطرت کی طرف لوٹنے کی ترغیب دینے والی تحریکیں اگر ہنٹر گیدررز والے طرز زندگی کی حمایت کریں تو ہمیں اپنا حامی پائیں۔
تعلیم میں دل تو ہمارا خیر پہلے بھی کبھی نہیں لگا لیکن مشین لرننگ کی بات اور ہے ۔ وہ ہم اس نیت سے دل لگا کر پڑھتے ہیں کہ خود کو سیکھنا سکھائیں، مثلاً انسانوں سے انٹریکشن وغیرہ۔ یہ الگ معاملہ ہے کہ اس کے لیے ہمیں شاید ہیومن کمپیوٹر انٹریکشن پڑھنے کی ضرورت ہے اور کمپیوٹروں کے نکتہ نظر سے۔
بات ہو رہی تھی غریب الوطنی کی تو جب انسان کو اپنے ببل میں رہنا ہو تو اس ببل کے کوآرڈینیٹس سے کیا فرق پڑتا ہے، نہ خود کو اور نہ ببل کو۔ ہاں گھر والے ہمیں ضرور یاد آیا کرتے ہیں خصوصا اس وقت جب ہمیں اپنی دہی خود خریدنی پڑے۔ خیر یہ ہے کہ مغرب کی آب و ہوا ایسے بلبلوں کے لیے کافی سازگار ہے ۔ برف کا بھی ہم ایسا برا نہیں مانتے کہ اس سے ہماری کچھ رشتہ داری ہے اور ہمارا خیال ہے کہ ناصر کاظمی اسے بھی فرسٹ ٹائمرز کی فہرست میں شامل کرتے اگر وہ مری کا چکر لگا پاتے تو۔ خیر آج کل کے مری کا چکر لگانے سے، وہ بھی برف باری کے موسم میں، ناصر صرف انسانوں اور کاروں کی ہجو لکھ سکتے تھے اور کچھ نہیں۔ اچھا ہی ہوا کہ بیچارے سکارڈ فار لائف ہونے سے بچ گئے۔
پھر بھی یہ ایک حقیقت ہے کہ مغرب میں بھی انسان ہی بسا کرتے ہیں اور انسانوں میں بہت کچھ مشترک بھی ہوا کرتا ہے ۔ ہمیں بھی کبھی کسی کی مسکراہٹ کی رمق یا آنکھوں کی چمک دیکھ کر کسی اور کا خیال آ جائے تو ہم فون اٹھاتے ہیں اور جمع تفریق کے بعد عموماً فون دوبارہ واپس رکھ دیتے ہیں کہ دس گھنٹے کا فرق بہت کم مشترکہ وقت رہنے دیتا ہے۔ ہاں یونیورسٹی میں ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے پھرنے والوں کی بات اور ہے، انھیں دیکھ کر ہم ہاتھ جیکٹ کی جیبوں میں گھسا لیتے ہیں۔ شاید اسی لیے ادھر اتنی ٹھنڈ برسائی جاتی ہے کہ ہم جیسوں کو جیکٹ کی جیبیں تو میسر ہوں۔
پنڈی سے ہمارا ایک عجیب تعلق ہے کہ اس شہر میں ہم پاس بھی ہوئے ہیں اور فیل بھی مگر جب ٹیک آف کرتے ہوئے جہاز کی کھڑکی سے دور پار ٹمٹانے والی بتیوں کو دیکھتے ہیں تو ہمارے محسوسات کچھ وہی ہوتے ہیں جو کارل سیگن نے اپنے نیلے نقطے والے مضمون میں بیان کیے ہیں۔ ہمیں بھی یہی خیال ستاتا ہے کہ زمان و مکان کے اس بے کراں سکیل پر ہمارا جو کچھ بھی ہے، یہیں اسی شہر میں قیام پذیر ہے۔ ہماری تمام آرزوؤں کا محور، ہماری تمام حاصل اور لاحاصل کوششوں کا حتمی مقصد۔ یوں تو دنیا میں ہمیں کوئی نہیں جانتا لیکن ایک ہاتھ کی انگلیوں بلکہ انگلی پر گنے جانے والے افراد جو ہمیں بہرحال جانتے ہیں، یہاں رہتے ہیں۔ ہمارا گھر رن وے سے اچھا خاصا دور ہے مگر پھر بھی ہم ہر مرتبہ یہ سوچتے ہیں کہ شہر کی بہت سی ٹمٹماتی ہوئی روشنیوں میں سے ایک اس دئیے کی بھی ہے جسے ہمارے گھر والوں نے جلا کر صحن کی دیوار پر رکھ دیا ہے کیونکہ اب ہم چلے گئے ہیں اور روشنی تو چاہیے ہوتی ہے گھر میں۔ یہ بھی خیال آتا ہے کہ اگر یہ شہر فقط ہمارے تخیل کا ایک کرشمہ ہو تو ہماری کوئی حیثیت اور کوئی شخصیت نہیں رہ جاتی اور نہ ہی ہم پر کسی قسم کا پل رہ جاتا ہے، بالکل دور دراز ڈیپ سپیس میں پھرنے والے خلائی کچرے کے طرح۔ دور رہ کر یوں بھی کٹی پتنگ کا استعارہ اچھی طرح سمجھ میں آ جاتا ہے۔
یہاں تک پہنچنے کے بعد ہم آنکھیں بند کرتے ہیں اور دعا مانگتے ہیں، شہر اور شہر والوں کے لیے۔
شب ہجراں سے طویل تر فلائٹ بلکہ فلائٹوں ( کہ یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ ایک فلائٹ ہوتی )کے بعد ہم اترتے ہیں اور پوکر فیس لیے داخلے کی قطار میں لگ جاتے ہیں ۔ ان ائیرپورٹوں پر محاورتا نہیں بلکہ حقیقتا سارے جہان سے لوگ اپنے اپنے خواب لے کر آتے ہیں ، اچھی قیمت کی آرزو میں۔ بھانت بھانت کے، ہر سائز اور ہر رنگ کے خواب، اور وہ بھی دنیا کے چاروں کونوں سے۔ ان پر لکھنے کو تو مجید امجد سا ہنر چاہیے، وہ ہم کہاں سے لائیں۔ نثر نگاری کی رعایت سے ہم یہاں کہہ سکتے ہیں کہ ہم قطار میں کھڑے چہرے پڑھتے ہیں لیکن اوّل تو ہم مساواتوں کے علاوہ کچھ پڑھنے کا ہنر نہیں رکھتے اور دوئم یہاں دوسروں کی جانب دیکھنا معیوب سمجھا جاتا ہے، خدا جانے ہمارے ہاں اس قدر تفصیلی سفر نامے کیوں کر تحریر کیے جاتے ہیں مغرب کے۔ بتیاں تو ہمیں اس شہر کی بھی، جو فی الحال ہمارا شہر ہے، بہت اچھی لگتی ہیں مگر ادھر اترتے ہی ہم کوئی اور سنجیدہ مخلوق بن جاتے ہیں اور شاید غریب الوطنی کا اصل مسئلہ یہی ہے کہ انسان وہ کچھ بن جاتا ہے جو پہلے کبھی اس کے گمان میں بھی نہیں ہوتا۔
خیر چل پڑنے کے باب میں ہم حسب عادت کچھ مبالغہ آرائی کر بیٹھے ہیں۔ دل ایک مرتبہ کہیں لگ جائے تو پھر ہزار آسانی سے اور ڈیجیٹل طریقے سے یعنی یکایک اٹھے مگر اس کا کچھ نہ کچھ حصہ وہیں رہ جاتا ہے۔
اس زمانے میں جب ہم امیدیت پسندی کے نئےنئے پنکھے ہوئے تھے اور ایگزیسٹینس پریسیڈس بینگ سے متاثر ہو کر خود کو تبدیل کرنے پر غور فرمایا کرتے تھے تو اس وقت بھی شہر چھوڑنے کے ضمن میں وہی بیس پچیس سال پرانا خیال رکھتے تھے کہ اماں کے گھر سے بیس پچیس کلومیٹر محیط کے دائرے سے باہر کوئی کیونکر رہے اور زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ کیوں رہے۔ جب یہ امر طے شدہ ہے کہ انسان کی زندگی میں ان سے زیادہ اہم کچھ بھی نہیں ہوتا تو پھرایک بھی دن کیوں دور گزارا جائے۔ یوں بھی خدا کی مخلوق میں سے ہم صرف اماں کی بات مانا کرتے ہیں اور اس معاملے میں تو ان کی بھی ماننے کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا۔
ایک اور خیال جو بعد میں خام ثابت ہوا، یہ تھا کہ پنڈی بوائز کے ٹپیکل فیشن میں ہم پنڈی کے ساتھ عرف عام میں سیٹ ہیں اور پنڈی ہمارے ساتھ۔ لیکن لوح نصیب پر جال شاید ہر طائر کے ذوق اور پنجے کی ہئیت کے مطابق ڈیزائن کیے جاتے ہیں۔ ہمیں بھی خطرناک حد تک مغالطہ ہو گیا کہ ایک یونیورسٹی کو نظر میں رکھ کر ہمیں تخلیق کیا گیا ہے اور اس مارے آج تک اس کے شہر کا نام ایسی عقیدت سے لیتے ہیں کہ کافی لوگوں کو شک ہے کہ معاملہ آخر ہے کیا۔
کچھ عرصہ قبل ہم اپنی ایک دور والے مشرق کی دوست سے استفسار کر رہے تھے کہ یہ کب آس حضوری ہو، کب سادھنا پوری ہو، کب کلیاں بیلے کی ہم سجنی کو پہنائیں والے شعر میں سادھنا کا کیا مفہوم ہے۔ یہاں تک تو ہم دونوں متفق تھے کہ پہننے پہنانے کے لیے کوئلے سے ہیرے تخلیق کیے جاتے ہیں، البتہ سادھنا کے مفہوم پر ذرا بحث ہو گئی۔ انھوں نے ہمیں مطلب سمجھانے کی کوشش کی جو کچھ زیادہ کارآمد ثابت نہیں ہوئی ۔ یاد تو ہم یوں بھی کچھ نہیں رکھا کرتے لیکن وہ کچھ ایسا کہہ رہی تھیں کہ اس سے مراد ہے، بہت ہی اونچے درجے کی تمنا۔
ہم نے سوال کیا، تو کیا فلاں یونیورسٹی ہماری سادھنا ہے؟
کہنے لگیں، نہیں نمرہ، اگر وہ تمھاری سادھنا ہوتی تو اس وقت تم وہیں ہوتیں۔
اب ہم کیا کریں کہ ہماری کہانی میں ظالم سماج کا کردار ہمیشہ داخلہ کمیٹیاں اور ادارتی بورڈ ادا کیا کرتے ہیں۔
خیر سادھنا وغیرہ سے قطع نظر ہم اس جگہ کی راہداریوں میں جھاڑو لگانے کے بھی قابل نہیں مگر انسان کو سردیوں کی شاموں اور گرمیوں کی دوپہروں میں اداس پھرنے کو ایک نام بھی درکار ہوتا ہے۔ اس یونیورسٹی کو تو آج تک خبر نہیں ہو سکی کہ ہم وجود رکھتے ہیں اور صرف اسی کے لیے اور اگر تصویر پرستی کے قائل ہوتے تو اس کے داخلی دروازے کی تصویر فریم کرا کے صبح شام اپنے دوپٹے سے اس کی گرد جھاڑا کرتے۔
لیکن یہ ضرور ہوا کہ اس یونیورسٹی سے لفٹ لینے کے چکر میں ہم ایک اور جگہ اٹک گئے جو کہ ہمارے پسندیدہ دائرے سے ذرا باہر واقع ہوئی تھی۔
بات وہیں آ کر پہنچی ، یعنی کہ دور۔ تو پھر یہاں ہمیں اپنے دو خیالات میں سے ایک کی قربانی بادل نخواستہ دینا پڑی۔
خیر یہ بھی ہم نے چپ چاپ تو نہیں دی بلکہ بہت سی پیشن گوئیوں کے ساتھ دی کہ شاید ہم دنیا کے پہلے انسان ہوں جو ہوم سکنس کے مارے انتقال کر جائے۔ بڑی بات ہے کہ اس قسم کی پیشن گوئیوں کے باوجود بھی ہمیں بھیج دیا گیا ۔ کچھ یہ بھی تھا کہ اس یونیورسٹی کو انکار کرنے کی ہمیں تاب نہیں تھی۔
غریب الدیار ہونے سے قبل ہمارا اس کیفییت سے تعارف فقط بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے کی حد تک تھا اور ہم کبھی کبھار کسی تجربہ کار انسان سے پوچھتے تھے تو ہمیں عجیب و غریب جواب ملا کرتے تھے اور ہم نے ارادہ کر لیا تھا کہ خدا نے موقع دیا تو نثر نگاروں کے رواج کے مطابق اس پر مقالہ تحریر کریں گے۔
لیکن صاحبو، غریب الوطنی کا احساس اس قدر سبلائم اور ایتھرئیل ہے کہ اسے شعر میں باندھنا بھی بڑا کٹھن کام ہے۔ نثر میں تو خیر یوں بھی لطافت کا خون ہو جاتا ہے۔ میر کے شعر کا معاملہ یوں ہے کہ وہ ہمیں کچھ یوں بھی موقع بے موقع یاد آتے ہیں اور پھر یہ بھی کہ ہمیں تو اپنے شہر میں بھی کوئی نہیں پوچھتا تھا خصوصا بے روزگاری کے دنوں میں تو پھر دیس پردیس کی تخصیص کیسی۔ بے روزگاری کا ٹکڑا یوں لگانا پڑا کہ روزگار میں ڈیڈ لائنیں بھی ہوتی ہیں اور ڈیزائن میں بگز بھی جن سے پالا پڑنے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ غم عشق گر نہ ہوتا غم روزگار ہوتا کا نکتہ سمجھنے والے سستے میں چھوٹ گئے۔
حفیظ سے ہمیں اختلاف ہے کہ غریب الوطنی کا احساس ہمارے نزدیک تو دھوپ کی تمازت جیسا نہیں بلکہ تاریکی کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے یا وائڈ کی مانند ہے جو کیا دھوپ کیا چھاؤں، ہر جگہ انسان کے ساتھ ساتھ پھرتا ہے پردیس میں۔ یہاں پردیس سے مراد ہر وہ جگہ ہے جہاں انسان اپنے جاننے والوں سے دور ہو ورنہ دیوجانس کلبی کی طرح ہمیں بھی سرحدوں کے کانسپٹ کی حقیقت سمجھنے میں مشکل ہوتی ہے۔
یوں تو ہر انسان کے تجربات کا ایک بڑا اور اہم حصہ اس کی شخصیت پر بھی مبنی ہوتا ہے اسی لیے کسی کا ہماری رائے سے اتفاق کرنا ضروری نہیں۔ ہم نہ تو احساسات کے زیادہ قائل ہیں ، نہ غریب الوطنی کے اور نہ ہی اتفاق کے۔ مشرق کے مکینوں کا دل عرصے سے مغرب میں اٹکتا آیا ہے اور اس میں بھی کوئی تعجب نہیں۔ غریب الوطنی میں بہت سے معاملات مشترک ہوتے ہوں گے مگر مشرق ہنوز مشرق ہے اور مغرب مغرب لہذا ہماری رائے کو اوقیانوس پار کرنے کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔
اوقیانوس پار کرنا یوں اچھا ہے کہ اس میں گھر والوں کو اس قسم کے جملوں سے بلیک میل کرنے کا خاصا سکوپ ہےمثلا ہمیں تو اٹھا کر اوقیانوس کے پار پھینک دیا گیا ہے مگر اس پار کرنے میں انسان کی جان آدھی رہ جاتی ہے امیگریشن کے ٹنٹنے کے علاوہ بھی۔ سچ یہ ہے کہ ہمیں بوسٹن اور پیساڈینا سے غائبانہ عقیدت تھی اور اس حد تک غائبانہ کہ ہم نے کبھی دنیا کے نقشے پر انھیں ڈھونڈنے کی زحمت نہیں کی مگر جب ہمیں حکم نامہ موصول ہوا کہ بی بی اپنا بوریا بستر باندھیے اور اس یونیورسٹی میں اتر کر کھولیے تو نقشے پر اس کی جائے وقوع ڈھونڈنے میں دل کو ذرا پریشانی ہوئی۔ مطلب یہ کہ نقشے پر اس سے بعید کچھ بھی نہیں سوائے کینیڈا کے، مطلب کہ اگر انسان کو اترنا ہی ہو تو کسی قریب کی جگہ اترے بھئی۔ افسوس ہے کہ اس قدر ترقی کے باوجود ابھی تک ٹیلی پورٹیشن کا کوئی طریقہ نہیں۔
یونیورسٹی ہماری یوں تو اچھی ہے مگراس کے نام سے عموماً لوگ واقف نہیں ہوتے۔ اپنے شہر کو کیا الزام دیں، برکلی سے کسی کا تبصرہ معلوم ہوا جس کے مطابق اس غریب کو کسی قسم کا تربوز سمجھا گیا تھا۔ خیر جواب دینے والے کہ قیامت کی زباں رکھتے ہیں، کہے بغیر نہیں رہ سکے کہ یو سی تو یونیورسٹی سینٹر ہوا کرتا ہے، کسی درسگاہ کا نام تھوڑا ہی ہے۔ لیکن ہمیں یہاں سب کچھ اچھا لگتا ہے سوائے کم سے کم نیند کے ساتھ فنکشن کرنے کی دوڑ کے جو شب و روز جاری رہتی ہے۔ گردش زمانہ کی زد میں جب آتے ہیں تو پچیس تیس پیہم گھنٹے ہم بھی لگاتے ہیں لیکن یہ اوائل سمسٹر سے ہی سپر ویمپائر بننے کی تک سمجھ میں نہیں آتی۔ خیر یہ بھی سچ ہے کہ اس کے بعد امتحانوں کے پرچے بھی ہماری سمجھ میں نہیں آتے لیکن ابھی تعطیلات کے گزرنے کے باعث ہمارے ہی الفاظ میں رت سہانی چل رہی ہے اور ہم ایسے موضوعات سے پرہیز کریں گے۔ یہاں ہمیں واقعی پاس ہونے کے لالے پڑے ہوتے ہیں مگر اگر ہمیں ہزار بار بھی موقع دیا جائے تو ہم یہیں آنا پسند کریں۔ اے کاش جانتا نہ تری رہگزر کو میں۔ شہر بھی یوں پسند ہے کہ ہمارا ہم مزاج ہے، قدیم اور خاموش۔
اپنے اردگرد کو پسند کرنے کی انسانی ٹینڈینسی سے قطع نظر اپنی یونیورسٹی ہمیں یوں بھی اچھی لگتی ہے کہ اس میں قینچی چپل پہن کر بس کے پیچھے دوڑا جا سکتا ہے، لیٹ اٹ گو کا راگ الاپتے ہوئے۔ یہاں یہ واضح کرتے چلیں کہ اٹ کا مشارالیہ بس ہرگز نہیں ہوا کرتی۔ یہ ضرور ہے کہ پھر ہرگز ضروری نہیں کہ اس بس میں ہمیں کھڑا دیکھ کر کوئی اٹھ کھڑا ہو لیکن زندگی آپٹمائزیشنز کا نام ہے اور ہم یوں ہی خوش رہتے ہیں۔ ٹھیک ہے کہ اس شہر میں اپنا فرنیچر خود ہی سڑکوں پر گھسیٹنا پڑتا ہے مگر اسے ہم کہیں زیادہ سہل پاتے ہیں بہ نسبت انسانی تعلقات گھسیٹنے کے۔ خیر یہ بھی ہے کہ فرنیچر بے زبان ہوا کرتا ہے۔ انسانوں کی بے مروتی ہم تو شاید مجھے ازل سے وفا سے گریز تھا، شاید قصور اس میں تمھارا بھی کچھ نہیں کہہ کر جھٹک دیتے ہیں لیکن دوسرے لوگ ہمیں اتنی رعایت دینے پر تیار نہیں ہوتے۔
تمہید کا مقصد فقط یہ اعتراف کرنا تھا کہ ہماری رائے مبنی بر تعصب ہو سکتی ہے مگر وہ کس انسان یا مشین کی نہیں ہوتی۔ بس کبھی کبھار خیال آتا یے کہ لیٹ اٹ گو کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ انسان کو خالی ہاتھ رہنے کی خو ہو جاتی ہے اور اسے کچھ بھی ہاتھ سے چھوڑتے ہوئے تامل نہیں ہوتا۔ گھر کا رستہ تو انسان گوگل میپ میں محفوظ کر لے لیکن نگری نگری پھرنے سے گھر کا تصور بھی کہیں راستے میں ہی رہ جاتا ہے۔ کرانک خانہ بدوشوں کو پھر کبھی گھر راس نہیں آتے اور اپنی چار چیزوں کی پوٹلی کے علاوہ کچھ بھی اپنا محسوس نہیں ہوتا۔ یہاں یہ بحث بھی کی جا سکتی ہے کہ انسان اپنے آپ کو کسی خانے اور لیبل میں قید کرے ہی کیوں اور اس کی حمایت میں اقبال کا شعر لایا جا سکتا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہر ملک ہمارا ملک ہے لیکن صاحبو، آئیڈینٹیٹی اور بیلانگنگ اور آنٹی گریشن کے مسائل بڑے پیچیدہ ہیں اور ہماری سعی سے سلجھنے سے رہے جبکہ ہمیں ویکٹر کیلکلس تک نہیں آتا۔
سرکاری طور پر ہماری جلاوطنی کا مقصد تعلیم حاصل کرنا ہے مگر سچ یہ ہے کہ ہمارا دل تعلیم حاصل کرنے کے علاوہ آوارہ گردی سے لے کر خانہ داری تک ہر شے میں لگتا ہے کہ دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت۔ مؤخرالزکر کے باب میں تو ہم اس قدر طاق ہو چکے ہیں کہ سست الوجود افراد کے لیے کم ترین ریزیسٹینس سے گھر چلانے پر ایک مینوئل لکھ سکتے ہیں جو کچھ تو اپنی سستی کے مارے نہیں لکھتے اور کچھ اپنی اماں کے ڈر سے۔ خاطر غزنوی پھر بھی خوش نصیب تھے کہ فقط ویرانے ساتھ لیے پھرتے تھے، ہمارے ہمراہ تو ہمیشہ انتشار اور بدنظمی کا طوفان رہتا ہے۔ کسی کامک سے اٹھائی ہوئی بات ہے مگر اپنے دل کی آواز معلوم ہوتی ہے کہ کھانا پکانے میں چھ گھنٹے لگتے ہیں، کھانے میں تین منٹ اور برتن دھونے میں سات دن اور سات راتیں۔ یہاں اپنی اماں کا گھر یاد آتا ہے جہاں ایک ان کہا اصول تھا اور طبیعات کے قوانین جتنا محترم کہ برتن دھونے سے ہمارے ہاتھ خراب ہو جائیں گے جن سے ابھی ہمیں کچھ طنزیہ مضامین تحریر کرنے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ ڈھنگ کے مصنفین کے برعکس ہماری موٹیویشن فقط اتنی ہوا کرتی ہے کہ ان تمام افراد اور اداروں سے بدلہ لے سکیں جن سے بدلہ لینے کی اور کوئی صورت نہیں۔ یہ مزید اور ہے کہ درویشوں کے قہر کی طرح ان کی تحریریں بھی ان کی اپنی جان پر گرتی ہیں یعنی فقط لکھنے کی ہوتی ہیں، پڑھنے کی نہیں اور وہ بھی اکثر اسی وقت جب کوئی ضروری کام سر پر لہرا رہا ہو۔
بات یہ ہے کہ کھانا پکانا اس قدر محنت طلب کام ہے کہ اس کے مارے ہم کھانا کھانا ترک کر سکتے ہیں اور کر دینا چاہیے۔ پھر کھانا پکانے والے کا نیٹ انرجی گین تو لازما منفی ہوا کرتا ہے، ویج گیپ کی بحثوں کے علاوہ بھی۔ اس سے بہتر ہے کہ انسان اتنی دیر میں شعر کہہ ڈالے، کم از کم ان کے پھیکے نکلنے پر اتنا افسوس تو نہیں ہوتا۔ خدا اس شخص سے سوال کرے جس نے آگ دریافت کر کے ہمارے آباؤ اجداد کی کچے کھانے کی عادت ختم کروا دی۔ انسانوں کو بھی پٹرول پر چلنا چاہیے، آخر کاریں بھی چلتی ہیں اور کیسی خوبصورت ہوا کرتی ہیں۔ اب جمالیات کے پیچھے ایفیشینسی کا خون ہوتا ہو تو ہوتا رہے۔ فطرت کی طرف لوٹنے کی ترغیب دینے والی تحریکیں اگر ہنٹر گیدررز والے طرز زندگی کی حمایت کریں تو ہمیں اپنا حامی پائیں۔
تعلیم میں دل تو ہمارا خیر پہلے بھی کبھی نہیں لگا لیکن مشین لرننگ کی بات اور ہے ۔ وہ ہم اس نیت سے دل لگا کر پڑھتے ہیں کہ خود کو سیکھنا سکھائیں، مثلاً انسانوں سے انٹریکشن وغیرہ۔ یہ الگ معاملہ ہے کہ اس کے لیے ہمیں شاید ہیومن کمپیوٹر انٹریکشن پڑھنے کی ضرورت ہے اور کمپیوٹروں کے نکتہ نظر سے۔
بات ہو رہی تھی غریب الوطنی کی تو جب انسان کو اپنے ببل میں رہنا ہو تو اس ببل کے کوآرڈینیٹس سے کیا فرق پڑتا ہے، نہ خود کو اور نہ ببل کو۔ ہاں گھر والے ہمیں ضرور یاد آیا کرتے ہیں خصوصا اس وقت جب ہمیں اپنی دہی خود خریدنی پڑے۔ خیر یہ ہے کہ مغرب کی آب و ہوا ایسے بلبلوں کے لیے کافی سازگار ہے ۔ برف کا بھی ہم ایسا برا نہیں مانتے کہ اس سے ہماری کچھ رشتہ داری ہے اور ہمارا خیال ہے کہ ناصر کاظمی اسے بھی فرسٹ ٹائمرز کی فہرست میں شامل کرتے اگر وہ مری کا چکر لگا پاتے تو۔ خیر آج کل کے مری کا چکر لگانے سے، وہ بھی برف باری کے موسم میں، ناصر صرف انسانوں اور کاروں کی ہجو لکھ سکتے تھے اور کچھ نہیں۔ اچھا ہی ہوا کہ بیچارے سکارڈ فار لائف ہونے سے بچ گئے۔
پھر بھی یہ ایک حقیقت ہے کہ مغرب میں بھی انسان ہی بسا کرتے ہیں اور انسانوں میں بہت کچھ مشترک بھی ہوا کرتا ہے ۔ ہمیں بھی کبھی کسی کی مسکراہٹ کی رمق یا آنکھوں کی چمک دیکھ کر کسی اور کا خیال آ جائے تو ہم فون اٹھاتے ہیں اور جمع تفریق کے بعد عموماً فون دوبارہ واپس رکھ دیتے ہیں کہ دس گھنٹے کا فرق بہت کم مشترکہ وقت رہنے دیتا ہے۔ ہاں یونیورسٹی میں ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے پھرنے والوں کی بات اور ہے، انھیں دیکھ کر ہم ہاتھ جیکٹ کی جیبوں میں گھسا لیتے ہیں۔ شاید اسی لیے ادھر اتنی ٹھنڈ برسائی جاتی ہے کہ ہم جیسوں کو جیکٹ کی جیبیں تو میسر ہوں۔
پنڈی سے ہمارا ایک عجیب تعلق ہے کہ اس شہر میں ہم پاس بھی ہوئے ہیں اور فیل بھی مگر جب ٹیک آف کرتے ہوئے جہاز کی کھڑکی سے دور پار ٹمٹانے والی بتیوں کو دیکھتے ہیں تو ہمارے محسوسات کچھ وہی ہوتے ہیں جو کارل سیگن نے اپنے نیلے نقطے والے مضمون میں بیان کیے ہیں۔ ہمیں بھی یہی خیال ستاتا ہے کہ زمان و مکان کے اس بے کراں سکیل پر ہمارا جو کچھ بھی ہے، یہیں اسی شہر میں قیام پذیر ہے۔ ہماری تمام آرزوؤں کا محور، ہماری تمام حاصل اور لاحاصل کوششوں کا حتمی مقصد۔ یوں تو دنیا میں ہمیں کوئی نہیں جانتا لیکن ایک ہاتھ کی انگلیوں بلکہ انگلی پر گنے جانے والے افراد جو ہمیں بہرحال جانتے ہیں، یہاں رہتے ہیں۔ ہمارا گھر رن وے سے اچھا خاصا دور ہے مگر پھر بھی ہم ہر مرتبہ یہ سوچتے ہیں کہ شہر کی بہت سی ٹمٹماتی ہوئی روشنیوں میں سے ایک اس دئیے کی بھی ہے جسے ہمارے گھر والوں نے جلا کر صحن کی دیوار پر رکھ دیا ہے کیونکہ اب ہم چلے گئے ہیں اور روشنی تو چاہیے ہوتی ہے گھر میں۔ یہ بھی خیال آتا ہے کہ اگر یہ شہر فقط ہمارے تخیل کا ایک کرشمہ ہو تو ہماری کوئی حیثیت اور کوئی شخصیت نہیں رہ جاتی اور نہ ہی ہم پر کسی قسم کا پل رہ جاتا ہے، بالکل دور دراز ڈیپ سپیس میں پھرنے والے خلائی کچرے کے طرح۔ دور رہ کر یوں بھی کٹی پتنگ کا استعارہ اچھی طرح سمجھ میں آ جاتا ہے۔
یہاں تک پہنچنے کے بعد ہم آنکھیں بند کرتے ہیں اور دعا مانگتے ہیں، شہر اور شہر والوں کے لیے۔
شب ہجراں سے طویل تر فلائٹ بلکہ فلائٹوں ( کہ یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ ایک فلائٹ ہوتی )کے بعد ہم اترتے ہیں اور پوکر فیس لیے داخلے کی قطار میں لگ جاتے ہیں ۔ ان ائیرپورٹوں پر محاورتا نہیں بلکہ حقیقتا سارے جہان سے لوگ اپنے اپنے خواب لے کر آتے ہیں ، اچھی قیمت کی آرزو میں۔ بھانت بھانت کے، ہر سائز اور ہر رنگ کے خواب، اور وہ بھی دنیا کے چاروں کونوں سے۔ ان پر لکھنے کو تو مجید امجد سا ہنر چاہیے، وہ ہم کہاں سے لائیں۔ نثر نگاری کی رعایت سے ہم یہاں کہہ سکتے ہیں کہ ہم قطار میں کھڑے چہرے پڑھتے ہیں لیکن اوّل تو ہم مساواتوں کے علاوہ کچھ پڑھنے کا ہنر نہیں رکھتے اور دوئم یہاں دوسروں کی جانب دیکھنا معیوب سمجھا جاتا ہے، خدا جانے ہمارے ہاں اس قدر تفصیلی سفر نامے کیوں کر تحریر کیے جاتے ہیں مغرب کے۔ بتیاں تو ہمیں اس شہر کی بھی، جو فی الحال ہمارا شہر ہے، بہت اچھی لگتی ہیں مگر ادھر اترتے ہی ہم کوئی اور سنجیدہ مخلوق بن جاتے ہیں اور شاید غریب الوطنی کا اصل مسئلہ یہی ہے کہ انسان وہ کچھ بن جاتا ہے جو پہلے کبھی اس کے گمان میں بھی نہیں ہوتا۔