آصف شفیع
محفلین
ایک غزل احباب کی نذر:
پھر اسی آنکھ کا نظارا ہے
جس کا نشہ ابھی اتارا ہے
راز یہ دل پہ آشکارا ہے
تو محبت کا استعارا ہے
اک طرف ہجر کی مسافت ہے
اک طرف درد کا کنارا ہے
کس طرح میں جدا کروں تجھ کو
تو مجھے جان سے بھی پیارا ہے
دلِ بےتاب روٹھ مت جانا
تو مرا آخری سہارا ہے
زندگانی کا پوچھتے ہو کیا
ایک اڑتا ہوا غبارہ ہے
پھر جنوں کی نمود ہے مجھ میں
پھر مجھے دشت نے پکارا ہے
بازئ عشق میں نہیںکھلتا
کون جیتا ہے کون ہارا ہے
مجھ کو طوفاں سے کچھ نہیںآصف
میرے پیشِ نظر کنارا ہے
(آصف شفیع)
پھر اسی آنکھ کا نظارا ہے
جس کا نشہ ابھی اتارا ہے
راز یہ دل پہ آشکارا ہے
تو محبت کا استعارا ہے
اک طرف ہجر کی مسافت ہے
اک طرف درد کا کنارا ہے
کس طرح میں جدا کروں تجھ کو
تو مجھے جان سے بھی پیارا ہے
دلِ بےتاب روٹھ مت جانا
تو مرا آخری سہارا ہے
زندگانی کا پوچھتے ہو کیا
ایک اڑتا ہوا غبارہ ہے
پھر جنوں کی نمود ہے مجھ میں
پھر مجھے دشت نے پکارا ہے
بازئ عشق میں نہیںکھلتا
کون جیتا ہے کون ہارا ہے
مجھ کو طوفاں سے کچھ نہیںآصف
میرے پیشِ نظر کنارا ہے
(آصف شفیع)