کاشفی
محفلین
غزل
(راز رامپوری)
پھر بسانا ہے کسی عالم کو
دیکھو دیکھو نہ مٹاؤ ہم کو
سجدے کرنے کو ملک کافی تھے
کیوں بنایا ہے بنی آدم کو
سادگی ہائے محبت یعنی
ان سے اُمید ِ وفا ہے ہم کو
منزلیں ہجر کی طے کرنا ہیں
رات اندھیری ہے، ستارو چمکو
شادمانی کی تمنا نہ کریں
غم ملے جائے جو پیہم ہم کو
لاؤ غم سارا مجھ ہی کو دے دو
دیکھتے کیا ہو بھرے عالم کو
زندہ رہنا نہ سکھاؤ لیکن
جان دینا تو بتا دو ہم کو
راز دنیا سے الگ بیٹھے ہیں
لوگ کیوں چھیڑ رہے ہیں ہم کو