کاشفی

محفلین
غزل
(راز رامپوری)
پھر بسانا ہے کسی عالم کو
دیکھو دیکھو نہ مٹاؤ ہم کو
سجدے کرنے کو ملک کافی تھے
کیوں بنایا ہے بنی آدم کو
سادگی ہائے محبت یعنی
ان سے اُمید ِ وفا ہے ہم کو
منزلیں ہجر کی طے کرنا ہیں
رات اندھیری ہے، ستارو چمکو
شادمانی کی تمنا نہ کریں
غم ملے جائے جو پیہم ہم کو
لاؤ غم سارا مجھ ہی کو دے دو
دیکھتے کیا ہو بھرے عالم کو
زندہ رہنا نہ سکھاؤ لیکن
جان دینا تو بتا دو ہم کو
راز دنیا سے الگ بیٹھے ہیں
لوگ کیوں چھیڑ رہے ہیں ہم کو
 

فرخ منظور

لائبریرین
شریکِ محفل کرنے کا شکریہ کاشفی صاحب۔ دو اشعار دیکھیے گا ان میں کچھ مسئلہ لگ رہا ہے۔

منزلیں ہجر کی طے کرنا ہیں
رات اندھیری ہے ستارہ چم کو
اس شعر میں شاید ستارہ کی جگہ ستارے ہو گا۔

راز دنیا سے الگ بیٹھے ہیں
لوگ کیوں چھڑ رہے ہیں ہم کو

اس شعر میں چھڑ کی بجائے چھیڑ ہونا چاہیے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
منزلیں ہجر کی طے کرنا ہیں
رات اندھیری ہے ستارے چم کو

میرے خیال میں یہاں ستارے کی جگہ ٰستارو ٰ ہونا چاہیے یعنی رات اندھیری ہے ﴿اے﴾ ستارو چمکو۔


منزلیں ہجر کی طے کرنا ہیں
رات اندھیری ہے، ستارو چمکو
 
Top