طارق شاہ
محفلین
غزل
پھر لہُو بول رہا ہے دِل میں
دَم بہ دَم کوئی صدا ہے دِل میں
تاب لائیں گے نہ سُننے والے
آج وہ نغمہ چِھڑا ہے دِل میں
ہاتھ ملتے ہی رہیں گے گُل چِیں
آج وہ پُھول کِھلا ہے دِل میں
دشت بھی دیکھے ، چمن بھی دیکھا
کُچھ عجب آب و ہَوا ہے دِل میں
رنج بھی دیکھے، خوشی بھی دیکھی
آج کُچھ درد نیا ہے دِل میں
چشمِ تر ہی نہیں محوِ تسبیح
خُوں بھی سرگرمِ دُعا ہے دِل میں
پھر کسی یاد نے کروَٹ بدلی
کوئی کانٹا سا چُبھا ہے دِل میں
پھر کسی غم نے پُکارا شاید
کچھ اُجالا سا ہُوا ہے دِل میں
کہیں چہرے ، کہیں آنکھیں، کہیں ہونٹ
اِک صنم خانہ کُھلا ہے دِل میں
اُسے ڈھونڈا ، وہ کہیں بھی نہ مِلا
وہ کہیں بھی نہیں، یا ہے دِل میں
کیوں بھٹکتے پھریں دِل سے باہر
دوستو! شہر بَسا ہے دِل میں
کوئی دیکھے تو دِکھاؤں، ناصؔر
وُسعتِ ارض و سما ہے دِل میں
ناصؔر کاظمی