نذیر احمد قریشی
محفلین
پھر مرے شہر میں چرچا ہے بہار آنے کا
میرے اندر کی خزاں نام تو لے جانے کا
ُگل ِکھلیں گے تو چلے آئیں گے بھنورے سارے
کوئی سامان مرے یار کو بھی لانے کا
َبن کے دیوانہ ترے شہر کی گلیوں میں پھروں
کوئی رستہ نظر آیا نہ تجھے پانے کا
ساقئ بزم نہیں تھا، تو تھا پیالہ نہ شراب
میں ُمڑا تشنہ عجب طور تھا میخانے کا
تیرے در پر تو تھا پہلے ہی رقیبوں کا ہجوم
اور سودا مرے سر میں تجھے اپنانے کا
دستِ قاتل کا ہنر کر گیا حیراں سب کو
کھل نہ پایا کبھی عقدہ مرے مر جانے کا
میرے اندر کی خزاں نام تو لے جانے کا
ُگل ِکھلیں گے تو چلے آئیں گے بھنورے سارے
کوئی سامان مرے یار کو بھی لانے کا
َبن کے دیوانہ ترے شہر کی گلیوں میں پھروں
کوئی رستہ نظر آیا نہ تجھے پانے کا
ساقئ بزم نہیں تھا، تو تھا پیالہ نہ شراب
میں ُمڑا تشنہ عجب طور تھا میخانے کا
تیرے در پر تو تھا پہلے ہی رقیبوں کا ہجوم
اور سودا مرے سر میں تجھے اپنانے کا
دستِ قاتل کا ہنر کر گیا حیراں سب کو
کھل نہ پایا کبھی عقدہ مرے مر جانے کا