بحر -- فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن
پھر نئی اک امامت سے گھبرا گیا/چلا
شہر میری کرامت سے گھبرا گیا/چلا
اب کہیں اور لے چل مجھے شہر سے
روز کی اس قیامت سے گھبرا گیا/چلا
روز سنتا ہوں طعنے میں خاطر تری
میں تو اب اس ملامت سے گھبرا گیا/چلا
وہ تو تہذیب حاضر کا شیدائی تھا
میرے دل کی قدامت سے گھبرا گیا/چلا
تھی بہت جس کو خاہش مجھے پڑھنے کی
داستاں کی ضخامت سے گھبرا گیا/چلا
آدمیت کا چہرہ جو عریاں ہوا
شام میں تو ندامت سے گھبرا گیا/چلا
زندگی کو بناتا ہے دیوانگی
عشق کی اس علامت سے گھبرا گیا/چلا
دل بس اب کہ تری خاہشیں ہیں بہت
میں تو تیری نظامت سے گھبرا گیا/چلا