پھر نئی اک امامت سے گھبرا گیا/چلا --- برائے اصلاح

شام

محفلین
بحر -- فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن

پھر نئی اک امامت سے گھبرا گیا/چلا​
شہر میری کرامت سے گھبرا گیا/چلا​
اب کہیں اور لے چل مجھے شہر سے​
روز کی اس قیامت سے گھبرا گیا/چلا​
روز سنتا ہوں طعنے میں خاطر تری​
میں تو اب اس ملامت سے گھبرا گیا/چلا​
وہ تو تہذیب حاضر کا شیدائی تھا​
میرے دل کی قدامت سے گھبرا گیا/چلا​
تھی بہت جس کو خاہش مجھے پڑھنے کی​
داستاں کی ضخامت سے گھبرا گیا/چلا​
آدمیت کا چہرہ جو عریاں ہوا​
شام میں تو ندامت سے گھبرا گیا/چلا​
زندگی کو بناتا ہے دیوانگی​
عشق کی اس علامت سے گھبرا گیا/چلا​
دل بس اب کہ تری خاہشیں ہیں بہت​
میں تو تیری نظامت سے گھبرا گیا/چلا​
 
تھی بہت جس کو خاہش مجھے پڑھنے کی​
داستاں کی ضخامت سے گھبرا گیا/چلا​
دل بس اب کہ تری خاہشیں ہیں بہت​
میں تو تیری نظامت سے گھبرا گیا/چلا​

خوب غزل ہے۔ داد قبول ہو جناب
سرِ دست دو تبدیلیوں کی صلاح دیتے ہیں۔

تھی بہت جس کو خواہش کہ مجھ کو پڑھے یا تھی بہت اُس کو خواہش کہ پڑھ لے مجھے

آخری شعر کے پہلے مصرع کو بھی تبدیل کیجیے اور ساتھ ہی لفظ خواہش کا املا درست کرلیجیے
 
بہت ہی خوب غزل کہی. داد حاضر شام بھائی.
دوسری بات یہ کہ
خلیل بھائی کی صلاح سے بالکل متفق
ہوں.
یہ صلاح یہاں نہ ملتی تو غزل کو پڑھ کر پہلی نظر میں اسی مصرعے میں تبدیلی کا مشورہ دیتا.
باقی استاد جی کا انتظار کریں.
 

الف عین

لائبریرین
پھر نئی اک امامت سے گھبرا چلا
شہر میری کرامت سے گھبرا چلا
//درست عروضی طور پر، لیکن مفہوم؟

اب کہیں اور لے چل مجھے شہر سے
روز کی اس قیامت سے گھبرا چلا
// درست

روز سنتا ہوں طعنے میں خاطر تری
میں تو اب اس ملامت سے گھبرا چلا
//پہلا مصرع روانی کا طلب گار ہے
تیری خاطر میں سنتا ہوں طعنے سدا
اب تو میں اس ملامت۔۔۔۔

وہ تو تہذیب حاضر کا شیدائی تھا
میرے دل کی قدامت سے گھبرا چلا
//دل کی قدامت؟
ویسے درست

تھی بہت جس کو خاہش مجھے پڑھنے کی
داستاں کی ضخامت سے گھبرا چلا
//روانی کی کمی ہے۔ اس کو تو یوں کیا جا سکا ہے
تھی بہت مجھ کو پڑھنے کی خواہش جسے
لیکن داستان سنی جاتی ہے، پڑھی جاتی ہیں کتابیں، ناول، اور ان کی ہی ضخامت ممکن ہے۔ داستاں کی نہیں۔

آدمیت کا چہرہ جو عریاں ہوا
شام میں تو ندامت سے گھبرا چلا
//ندامت سے گھبرایا جاتا ہے؟
ویسے درست

زندگی کو بناتا ہے دیوانگی
عشق کی اس علامت سے گھبرا چلا
//درست

دل بس اب کہ تری خاہشیں ہیں بہت
میں تو تیری نظامت سے گھبرا چلا
//مطلب سمجھ میں نہیں آیا، نظامت؟ اس شعر کو نکال ہی دو
 

شام

محفلین
پھر نئی اک امامت سے گھبرا چلا
شہر میری کرامت سے گھبرا چلا
//درست عروضی طور پر، لیکن مفہوم؟
کہنے کا مطلب یہ تھا کہ میری کرامت اتنی زیادہ ہے کہ میں لوگوں کا قائد بنتا جا رہا ہوں اس لیے موجود حکومت اس بات سے خوفزدہ ہو گئی ہے
اب کہیں اور لے چل مجھے شہر سے
روز کی اس قیامت سے گھبرا چلا
// درست
شکریہ

روز سنتا ہوں طعنے میں خاطر تری
میں تو اب اس ملامت سے گھبرا چلا
//پہلا مصرع روانی کا طلب گار ہے
تیری خاطر میں سنتا ہوں طعنے سدا
اب تو میں اس ملامت۔۔۔ ۔
شکریہ
وہ تو تہذیب حاضر کا شیدائی تھا
میرے دل کی قدامت سے گھبرا چلا
//دل کی قدامت؟
ویسے درست
مراد یہ تھی کہ میں پرانی ریت و رواج پہ چلنے والا ہوں اور وہ نئے دور کا شخص ہے اس لیے وہ میرے ساتھ چلنے سے گھبرا گیا ہے

تھی بہت جس کو خاہش مجھے پڑھنے کی
داستاں کی ضخامت سے گھبرا چلا
//روانی کی کمی ہے۔ اس کو تو یوں کیا جا سکا ہے
تھی بہت مجھ کو پڑھنے کی خواہش جسے
لیکن داستان سنی جاتی ہے، پڑھی جاتی ہیں کتابیں، ناول، اور ان کی ہی ضخامت ممکن ہے۔ داستاں کی نہیں۔
سوچتا ہوں اس کو تبدیل کرنے کا

آدمیت کا چہرہ جو عریاں ہوا
شام میں تو ندامت سے گھبرا چلا
//ندامت سے گھبرایا جاتا ہے؟
ویسے درست
چونکہ نادم کے ماتھے پہ پسینہ آتا ہے اور گھبراہٹ میں بھی پسینہ آتا ہے


زندگی کو بناتا ہے دیوانگی
عشق کی اس علامت سے گھبرا چلا
//درست
شکریہ
دل بس اب کہ تری خاہشیں ہیں بہت
میں تو تیری نظامت سے گھبرا چلا
//مطلب سمجھ میں نہیں آیا، نظامت؟ اس شعر کو نکال ہی دو
نظامت مطلب حکومت ۔ یعنی دل کی خواہشیں اتنی زیادہ ہیں کہ میں ان کو پورا نہیں کر سکتا اس لیے اب دل کی باتیں نہیں ماننی
آپ کہتے تو نکال دیتا ہوں
 
Top