پھر چاند نکلا (چینی کہانی)

چینی کہانی
پھر چاند نکلا
عمران حسنات
مسز چُن ایک موٹی عورت تھی جو اکیلی ایک الگ تھلگ مکان میں رہتی تھی۔ اس کا اپنے بارے میں یہ خیال تھا کہ وہ ایک اچھی عورت ہے۔ وہ اکثر اپنی سہیلیوں کو بتاتی کہ میں بہت مہربان ہوں، لیکن خود کہنے سے تو کبھی کوئی مہربان نہیں ہو جاتا۔
ایک دن ایک آدمی نے مسز چُن کے گھر کے دروازے پہ دستک دی۔ وہ بہت غریب تھا۔ اس کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے، بال بکھرے ہوئے تھے۔ وہ بہت پریشان حال تھا۔ آدمی نے مسز چُن سے کھانے کے لیے کچھ مانگا۔ مسز چُن غصّے سے تلملاتی ہی باہر نکلی اور یہ کہتے ہوئے اس غریب آدمی پر برس پڑی، "جاؤ دفع ہو جاؤ۔ میرے پاس تمہیں کھلانے کو کچھ نہیں۔ اگر اتنے ہی بھوکے ہو تو خود محنت کرو اور کھاؤ۔"
یہ کہہ کر اس نے زور سے دروازہ بند کر دیا اور وہ غریب آدمی بند دروازے کو حسرت سے دیکھتا رہ گیا۔ دروازہ بند کرنے کے بعد مسز چُن نے اندر جا کر اپنے لیے چائے کا ایک گرم کپ تیار کیا اور مزے لے لے کر پیتی رہی۔ غریب آدمی سڑک کے کنارے چلتا ہوا ایک دوسرے مکان پر پہنچا جہاں مسز ٹنگ رہتی تھی۔ جونہی مسز ٹنگ کی نظر اس غریب آدمی پر پڑی وہ اس کی حالت دیکھ کر پریشان ہو گئی۔ مسز ٹنگ نے اسے اپنے پاس بلایا اور کہا، "تم تھکے ہوئے دکھائی دیتے ہو اور تمہیں سردی بھی لگ رہی ہے۔ آؤ! اندر آ جاؤ اور یہاں بیٹھ جاؤ۔ اگرچہ میرے پاس کوئی چائے وغیرہ نہیں ہے، لیکن تم پریشان نہ ہو۔ میرے پاس ایک روٹی اور تین خوبصورت سیب ہیں۔ ایک سیب میں کھا لیتی ہوں اور دو تم کھا لو۔"
وہ آدمی اس عورت کے گھر کے اندر گیا اور بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر تک ان دونوں نے باتیں کیں۔ پھر مسز ٹنگ اور اس آدمی نے مل کر روٹی اور سیب کھائے۔ تب وہ آدمی کھڑا ہو گیا اور مسز ٹنگ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہنے لگا، "آپ نے مجھ پر بڑا احسان کیا ہے۔ لہٰذا سورج غروب ہوتے وقت آپ جو کام شروع کریں گی وہ چاند کے نکلنے تک جاری رہے گا۔"
پھر اس آدمی نے دوبارہ خاتون کا شکریہ ادا کیا اور الله حافظ کہتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔
مسز ٹنگ سوچنے لگی کہ اس آدمی نے کیا عجیب و غریب بات کہی ہے کو جو کام تم سورج غروب ہونے کے وقت شروع کرو گی وہ چاند کے نکلنے تک جاری رہے گا۔ وہ سوچ میں پڑ گئی کہ اس بات سے اس کی کیا مراد ہے؟
پھر مسز ٹنگ کو میز پر ایک سیب رکھا ہوا دکھائی دیا۔ وہ خود سے کہنے لگی، "بےچارے نے صرف ایک سیب کھایا ہے۔ جب کہ میری خواہش تھی کہ وہ دونوں کھائے۔ کیوں نہ میں اس بچے ہوئے سیب کو ٹوکری میں رکھ دوں۔"
اس نے وہ سیب اٹھایا اور بڑی ٹوکری میں ڈال دیا۔ پھر اس نے مڑ کر دیکھا تو ایک اور خوبصورت سا سیب میز پر رکھا ہوا دکھائی دیا۔
"یہ تو بڑی عجیب بات ہے! میں نے ٹوکری میں سیب ڈال دیا تھا، مگر یہ پھر کہاں سے آ گیا۔"
اس نے وہ سیب اٹھا کر پھر ٹوکری میں ڈال دیا اور مطمئن ہو گئی، مگر اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب اسے میز پر ایک اور سیب رکھا نظر آیا۔ جب وہ سیب ٹوکری میں ڈالتی تو اسے میز پر ایک اور مل جاتا۔ اب مسز ٹنگ سمجھ گئی کہ اس آدمی کی بات کا مطلب کیا تھا۔ وہ ٹوکری میں سیب ڈالتی رہی، یہاں تک کہ چاند نکل آیا اور پھر میز پر کوئی سیب نظر نہ آیا۔
اب اس کی ٹوکری سیبوں سے بھر چکی تھی۔ دوسرے دن اس نے وہ سیبوں سے بھری ٹوکری بازار میں جا کر بیچ دی۔ اس طرح اس کے پاس بہت سی رقم آ گئی۔
مسز ٹنگ کی ساحلی مسز چُن جس نے اس غریب کو دھکّے دے کر نکال دیا تھا اس نے جب مسز ٹنگ کی سیبوں بھری ٹوکری دیکھی تو حیرت سے اس کی آنکھیں کھل گئیں۔ اس نے مسز ٹنگ سے پوچھا، "یہ تمام سیب تم نے کہاں سے لیے ہیں؟ تمہارے گھر میں تو سیب کا کوئی درخت بھی نہیں ہے!"
مسز ٹنگ نے اسے پورا واقعہ سنایا کہ کس طرح اس نے اس غریب آدمی کو کھانے کے لیے روٹی اور سیب دیے تھے اور کس طرح اس نے شکریہ ادا کیا۔ مسز چُن نے مسز ٹنگ سے تو کچھ نہ کہا، لیکن اپنے دل میں فیصلہ کر لیا کہ اب کی بار وہ بوڑھا آئے گا تو اس کو خوب کھلاؤں گی، خوب پلاؤں گی۔
اگلے دن وہ بوڑھا دوبارہ آیا۔ مسز چُن اس کو دیکھ کر خوشی سے پھولی نہ سمائی۔ اس نے بوڑھے آدمی سے درخواست کی، "مہربانی کر کے میرے گھر کے اندر آئیں۔ میں آپ کی خاطر مدارات کروں گی۔"
بوڑھا گھر کے اندر آ گیا۔ مسز چُن نے اسے پینے کے لیے چائے اور کھانے کے لیے بہت سے کیک دیے۔ بوڑھے آدمی نے بہت سے کیک کھائے اور بہت سی چائے پی۔ تب وہ کھڑا ہو گیا اور مسز چُن کا شکریہ ادا کیا۔ مسز چُن غور سے وہ باتیں سننے کے انتظار میں تھی جن کے بعد اسے اپنی من پسند چیز ڈھیروں مل سکتی تھی۔
پھر بوڑھا آدمی بولا، "سورج ڈوبنے کے وقت جو کام تم شروع کرو گی وہ چاند نکلنے تک کرتی رہو گی۔"
یہ کہنے کے بعد بوڑھے نے الله حافظ کہا اور چلا گیا۔ چونکہ مسز چُن کے ذہن میں تھا کہ سورج غروب ہونے کا وقت اسے کیا کرنا ہے۔ اس لیے اس نے ایک شلنگ کا سکّہ میز پر رکھا اور کہا، "جب سورج غروب ہونا شروع ہوگا تو میں شلنگ اٹھا کر بیگ میں رکھوں گی اور پھر چاند کے نکلنے تک سکّے اٹھا تی اور بیگ میں ڈالتی رہوں گی جب کہ آج رات چاند دیر سے نکلے گا۔ اس طرح صبح سے پہلے میں بہت دولت مند ہو جاؤں گی۔"
آخر سورج غروب ہونے لگا اور وہ وقت آ پہنچا جس کا مسز چُن کو بےچینی سے انتظار تھا۔ سورج غروب ہونے کے قریب ہی تھا کہ مسز چُن بےدھیانی میں تیزی سے مڑی جس کے نتیجے میں وہ میز پر رکھے ہوئے چائے سے بھرے برتن سے ٹکرا گئی اور چائے فرش پر گر کر بہنے لگی۔ اس نے جلدی سے کپڑا لیا اور فرش صاف کرنے لگی۔ جب وہ یہ کر رہی تھی تو اس وقت سورج غروب ہو گیا۔
پھر کیا ہوا!
وہ بےچاری فرش صاف کرتی رہی کرتی رہی، یہاں تک کہ چاند نکل آیا اور اس رات چاند دیر سے نکلا تھا۔ چوں کہ اس نے لالچ کی خاطر بوڑھے کی مدد کی تھی، اس لیے اسے اپنے کیے کی سزا مل گئی۔
٭٭٭​
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
بڑی سبق آموز کہانی ہے۔ مجھے بچپن میں نونہال رسالہ بہت پسند تھا۔ میں نے شاعری میں وزن کو جانچنے کا طریقہ (تقطیع) بھی "نونہال" کے ایک سلسلہ وار مضمون سے سیکھا تھا۔

انیس الرحمن کا بہت شکریہ۔
 

عینی شاہ

محفلین
واااااااااو کیتنے مزے کی کہانی ہے یہ ۔۔مینز نونہال مین تعلیم و تربیت کی طرح سے اچھی اچھی کہانی اتی تھیں :rolleyes:
 
بڑی سبق آموز کہانی ہے۔ مجھے بچپن میں نونہال رسالہ بہت پسند تھا۔ میں نے شاعری میں وزن کو جانچنے کا طریقہ (تقطیع) بھی "نونہال" کے ایک سلسلہ وار مضمون سے سیکھا تھا۔

انیس الرحمن کا بہت شکریہ۔
شکریہ کاشف بھائی۔
آپ شاید شان الحق حقی کے مضمون "نظم اور نثر کا فرق" (جو کہ پانچ اقساط میں شائع ہوا تھا) کی بات کر رہے ہیں۔
میں سوچ رہا تھا اسے ٹائپ کرنے کا۔ اسکین کیا ہوا ہے میں نے۔
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
شکریہ کاشف بھائی۔
آپ شاید شان الحق حقی کے مضمون "نظم اور نثر کا فرق" (جو کہ پانچ اقساط میں شائع ہوا تھا) کی بات کر رہے ہیں۔
میں سوچ رہا تھا اسے ٹائپ کرنے کا۔ اسکین کیا ہوا ہے میں نے۔
میرے خیال میں وہی ہو گا۔ کب چھپا تھا وہ مضمون؟
بلوچستان کے حالات کی وجہ سے ہجرت کرنی پڑی تو بچپن کا سارا "خزانہ" ضائع ہوا۔ سیکڑوں، ہزاروں رسالے اور کہانیاں، کتابیں تھیں میرے پاس۔
 
میرے خیال میں وہی ہو گا۔ کب چھپا تھا وہ مضمون؟
بلوچستان کے حالات کی وجہ سے ہجرت کرنی پڑی تو بچپن کا سارا "خزانہ" ضائع ہوا۔ سیکڑوں، ہزاروں رسالے اور کہانیاں، کتابیں تھیں میرے پاس۔
89 میں جنوری تا مئی۔۔۔
 

نایاب

لائبریرین
بہت خوب شراکت انیس بھائی
آج تو بٹیا رانی خوش ہو جائے گی کہانی سن کر ۔
بہت شکریہ بھائی
 
شکریہ کاشف بھائی۔
آپ شاید شان الحق حقی کے مضمون "نظم اور نثر کا فرق" (جو کہ پانچ اقساط میں شائع ہوا تھا) کی بات کر رہے ہیں۔
میں سوچ رہا تھا اسے ٹائپ کرنے کا۔ اسکین کیا ہوا ہے میں نے۔
اگر ہمیں بھی مل جائے تو وہ مضمون تو نوازش ہوگی۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
اس عورت نے مغرب ہوتے ہی پتی اکھٹی کرنی شروع کر دی۔ اور چاند نکلنے تک پتی کی دکان بنا چکی تھی۔ پتی اس قدر زیادہ ہوگئی تھی کہ دوسرے ملکوں کو بھی برآمد کی جانے لگی۔ تفصیلی تبصرہ بعد میں

بہت شکریہ انیس بھائی۔ اک اور عمدہ کہانی :)
 
Top