فرخ منظور
لائبریرین
غزل
پھر کے جو وہ شوخ نظر کر گیا
تیر سا کچھ دل سے گزر کر گیا
خاک کا سا ڈھیر، سرِ رہ ہوں میں
قافلۂ عمر سفر کر گیا
خلد بریں اُس کی ہے واں بود و باش
یاں کسی دل بیچ جو گھر کر گیا
چھپ کے ترے کوچے سے گزرا میں لیک
نالہ اِک عالم کو خبر کر گیا
جوں شرر کاغذِ آتش زدہ
شامِ غم اپنی میں سحر کر گیا
تا بہ فلک نالہ تو پہنچا تھا رات
میں ہی کچھ اللہ کا ڈر کر گیا
پوچھ نہ قائم کی کٹی کیوں کہ عمر
جوں ہوا، یک چند بسر کر گیا
(قائم چاند پوری)
پھر کے جو وہ شوخ نظر کر گیا
تیر سا کچھ دل سے گزر کر گیا
خاک کا سا ڈھیر، سرِ رہ ہوں میں
قافلۂ عمر سفر کر گیا
خلد بریں اُس کی ہے واں بود و باش
یاں کسی دل بیچ جو گھر کر گیا
چھپ کے ترے کوچے سے گزرا میں لیک
نالہ اِک عالم کو خبر کر گیا
جوں شرر کاغذِ آتش زدہ
شامِ غم اپنی میں سحر کر گیا
تا بہ فلک نالہ تو پہنچا تھا رات
میں ہی کچھ اللہ کا ڈر کر گیا
پوچھ نہ قائم کی کٹی کیوں کہ عمر
جوں ہوا، یک چند بسر کر گیا
(قائم چاند پوری)