رضا پھر کے گلی گلی تباہ ٹھوکریں سب کی کھائے کیوں

مہ جبین

محفلین
پھر کے گلی گلی تباہ ٹھوکریں سب کی کھائے کیوں​
دل کو جو عقل دے خدا تیری گلی سے جائے کیوں​
رخصتِ قافلہ کا شور غش سے ہمیں اٹھائے کیوں​
سوتے ہیں اُنکے سایہ میں کوئی ہمیں جگائے کیوں​
بار نہ تھے حبیب کو پالتے ہی غریب کو​
روئیں جو اب نصیب کو چین کہو گنوائے کیوں​
یادِ حضور کی قسم غفلتِ عیش ہے ستم​
خوب ہیں قیدِ غم میں ہم کوئی ہمیں چھڑائے کیوں​
دیکھ کے حضرت غنی پھیل پڑے فقیر بھی​
چھائی ہے اب تو چھاؤنی حشر ہی آنہ جائے کیوں​
جان ہے عشقِ مصطفےٰروز فزوں کرے خدا​
جس کو ہو درد کا مزہ نازِ دوا اٹھائے کیوں​
ہم تو ہیں آپ دل فگار غم میں ہنسی ہے ناگوار​
چھیڑ کے گُل کو نوبہار خون ہمیں رلائے کیوں​
یا تو یونہی تڑپ کے جائیں یا وہی دام سے چھڑائیں​
منتِ غیر کیوں اٹھائیں کوئی ترس جتائے کیوں​
خوش رہے گُل سے عندلیب خارِ حرم مجھے نصیب​
میری بلا بھی ذکر پر پھول کے خار کھائے کیوں​
گردِ ملال اگر دُھلے دل کی کلی اگر کِھلے​
برق سے آنکھ کیوں جلے رونے پہ مسکرائے کیوں​
جانِ سفر نصیب کو کس نے کہا مزے سے سو​
کھٹکا اگر سحر کا ہو شام سے موت آئے کیوں​
اب تو نہ روک اے غنی عادتِ سگ بگڑ گئی​
میرے کریم پہلے ہی لقمہء تر کھلائے کیوں​
سنگِ درِ حضور سے ہم کو خدا نہ صبر دے​
جانا ہے سر کو جاچکے دل کو قرار آئے کیوں​
ہے تو رضا نِرا ستم جرم پہ گر لجائیں ہم​
کوئی بجائے سوزِ غم سازِ طرب بجائے کیوں​
اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی رحمۃاللہ علیہ​
 

نایاب

لائبریرین
سبحان اللہ
پھر کے گلی گلی تباہ ٹھوکریں سب کی کھائے کیوں​
دل کو جو عقل دے خدا تیری گلی سے جائے کیوں​
 

عباس رضا

محفلین
یہ غالب کی مشہور زمین میں کہی گئی نعت ہے۔
دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں
روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستائے کیوں
بالخصوص ان دونوں مصرعوں کو سامنے رکھیں تو لطف دوبالا ہوجائے گا۔
غالب:
جس کو ہو دین و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں
اعلیٰ حضرت:
دل کو جو عقل دے خدا تیری گلی سے جائے کیوں
 
Top