طارق شاہ
محفلین
اکبرالہٰ آبادی
غزل
پھر گئی آپ کی دو دن میں طبیعت کیسی
یہ وفا کیسی تھی صاحب ، یہ مروّت کیسی
دوست احباب سے ہنس بول کے کٹ جائے گی رات
رندِ آزاد ہیں ، ہم کو شبِ فُرقت کیسی
جس حسِیں سے ہُوئی اُلفت وہی معشوق اپنا
عشق کِس چیز کو کہتے ہیں ، طبیعت کیسی
جس طرح ہوسکے دن زیست کے پورے کرلو
چار دن کے لئے اِنسان کو حسرت کیسی
ہے جو قسمت میں وہی ہوگا ، نہ کچھ کم نہ سوا
آرزو کہتے ہیں کِس چیز کو ، حسرت کیسی
کوچۂ یار میں جاتا تو نظارہ کرتا !
قیس آوارہ ہے جنگل میں ، یہ وحشت کیسی
حُسنِ اِخلاق پہ جی لوٹ گیا ہے میرا
میں تو کُشتہ تِری باتوں کا ہُوں ، صُورت کیسی
آپ بوسہ جو نہیں دیتے تو میں دِل کیوں دُوں
ایسی باتوں میں مِری جان مروّت کیسی
ہم نہ کہتے تھے کہ زینت بھی ہے معشُوق کو شرط
کیوں؟ نظر آتی ہے آئینے میں صورت کیسی
اکبر الہٰ آبادی
آخری تدوین: