سارہ خان
محفلین
پھول خوشبو کے نشے ہی میں بکھر جاتے ہیں
لوگ پہچان بناتے ہوئے مر جاتے ہیں
منزلیں اُن کا مُقدّر کہ طلب ہو جن کو
بے طلب لوگ تو منزل سے گُزر جاتے ہیں
جن کی آنکھوں میں ہوں آنسو، اُنہیں زندہ سمجھو
پانی مرتا ہے تو دریا بھی اُتر جاتے ہیں
لب خنداں ہوں، کہ ہوں اُن کی شگفتہ آنکھیں
ہم سمجھتے تھے کہ یہ زخم بھی بھر جاتے ہیں
اے خدا ایسی اذیّت سے بچانا ہم کو
جہاں دستار تو رہ جاتی ہے، سر جاتے ہیں
(سعداللہ شاہ)
لوگ پہچان بناتے ہوئے مر جاتے ہیں
منزلیں اُن کا مُقدّر کہ طلب ہو جن کو
بے طلب لوگ تو منزل سے گُزر جاتے ہیں
جن کی آنکھوں میں ہوں آنسو، اُنہیں زندہ سمجھو
پانی مرتا ہے تو دریا بھی اُتر جاتے ہیں
لب خنداں ہوں، کہ ہوں اُن کی شگفتہ آنکھیں
ہم سمجھتے تھے کہ یہ زخم بھی بھر جاتے ہیں
اے خدا ایسی اذیّت سے بچانا ہم کو
جہاں دستار تو رہ جاتی ہے، سر جاتے ہیں
(سعداللہ شاہ)