پھول سونگھے، جانے کیا یاد آگیا!! - اختر انصاری دہلوی

کاشفی

محفلین
غزل
(اختر انصاری دہلوی)

پھول سونگھے، جانے کیا یاد آگیا!!
دل عجب انداز سے لہرا گیا!

اُس سے پوچھے کوئی چاہت کے مزے
جس نے چاہا اور جو چاہا گیا

ایک لمحہ بن کے عیش ِ جاوداں
میری ساری زندگی پر چھا گیا

غنچہء دل ہائے! کیسا غنچہ تھا
جو کِھلا اور کھِلتے ہی مرجھا گیا

رو رہا ہوں موسمِ گل دیکھ کر
میں سمجھتا تھا مجھے صبر آگیا

یہ ہَوا، یہ برگِ گُل کا احتراز
آج میں رازِ مسرت پاگیا

اختر اب برسات رخصت ہوگئی
اب ہمارا رات کا رونا گیا
 

فرخ منظور

لائبریرین
شکریہ کاشفی صاحب۔ عمدہ انتخاب ہے۔ ایک مصرع میں "احتراز" ہ سے لکھا گیا ہے جو غلط ہے۔ اسے درست کر دیں۔
 
Top