ابن انشا پہلا سجدہ

وہ ارمانوں کی اجڑی ہوئی بستی​
پھر آج آباد ہوتی جا رہی ہے​
جہاں سے کاروان شوق گزرے​
نہ جانے کتنی مدت ہو گئی ہے​
پلا تھا صحبت اہل حرم میں​
میں برسوں سے تبستاں آشنا تھا​
بنی لیکن خدا سے نہ بتوں سے​
میں دونوں آستانوں سے خفا تھا​
مگر کچھ اور ہی عالم ہے اب تو​
میں اپنی حیرتوں میں کھو گیا ہوں​
مجسم ہو گئے ہیں حسن و جبروت​
مجھے لینا میں بہکا جا رہا ہوں​
کوئی یزداں ہو بت ہو آدمی ہو​
اضافی قیمتوں سے ماورا ہوں​
میں پہلی بار سجدہ کر رہا ہوں​
 
Top