ہواکچھ یوں کہ ۔ ۔ ہم اپنے والدیں کی پہلی اولاد کی صورت میں اس سیارہ پر نازل کئے گئے جسے آج زمین کہا جاتا ہے۔ ہم اس پر اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتے ہیں کہ ہماری "اماں" زیادہ انگریزی یافتہ نہیں تھیں سو بچپن ہی سے ان کی صلواتوں، جوتوں، سروتوں کے طفیل آج ہم آپ کے سامنے ہیں ورنہ جو پہلے دن اسکول میں سیکھا وہ کچھ ہوں تھا۔ "بیٹا آپ کی ممی کا نام کیا ہے؟"۔ ۔ ۔ معصوم (مابدولت) نے بڑی حیرانی سے اپنی مس کی طرف دیکھا۔ ۔ "بیٹا آپ کی امی کا نام کیا ہے ؟" اب ہماری سمجھ میں آیاکہ محترمہ "اماں" کہ بارے میں سوال کر رہی ہیں۔ "ہماری اماں کا نام عابدہ ہے"۔ ۔ ۔ ۔ "نہیں بیٹا اماں نہیں ممی کہا کرو" ۔ ۔ دوپہر گھر آئے تو اماں نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ ۔ آگیا میرا لال (زور دار چما)۔ ۔ ۔ ہم نے کہا "جی ممی"۔ ۔ پوچھا "کس نے سکھایا ؟۔ ۔ ہم نے کہا "مس نے کہا ممی کہا کرو"۔ ۔ ۔ اس دن اماں نے ہلکی سرزنش کی ۔ ۔ اگلے دن سختی سی سمجھا یا۔۔۔ تیسرے دن ڈانٹا۔۔۔ چوتھے دن چپت اور پانچویں دن سے دھنائ (زیادہ معصوم نا بنیں آپ کے ساتھ بھی یہی ہوا ہوگا) ۔ ۔ اتفاق سے ہماری مس ہماری محلے میں ہی رہتی تھیں یہ ہمارا پلس پوائنٹ تھا کیونکہ اماں نے ایک دن ان کو بلا کر سمجھا دیا کہ میرے بیٹے کو اپنے ان فرنگیانہ نظریات سے کافی دور رکھنا ورنہ۔ ۔ ۔ اب اس ورنہ کے پیچھے بھی ایک کہانی ہے جو خالصتا ہماری مس (بشری) کی ذاتی ذندگی سے متعلق ہے۔ ۔ ایک دن اماں خالہ زرینہ المعروف متھراوالی خالہ سے بات کر رہی تھیں۔ ۔ " ارے زرینہ آپا یہ ہاجرہ (مس بشری کی امی) کی اولاد کس رنگ میں ڈھل رہی ہے، ارے بتاؤ بچے کو سکھا رہی ہے کہ ممی کہا کرو ۔۔ ۔ اس پر خالہ زرینہ نے دو ہتھڑ مار کر کہا "کتنی جلدی اپنی اوقات بھول گئ ہے، جب پاکستان آئے تھے تو کیا تھے، ایک پاؤ دال میں پانچ سیر پانی پکتا تھا، سولہ دن چلتا تھا، اور گھر سے نکلتے تھے تو سب کے دانتوں میں تنکے چلتے تھے جیسے سالن میں گوشت کچا پکا رہ گیا ہو، اور یہی موئ بشری ۔ ۔ جس دن پیدا ہوئ لیاقت علی خان کو کھا گئ، اسی دن سے فرنگی راج پھر آگیا ان کالے انگریزوں کے باتھوں۔ ۔ "۔ ۔
بہرحال یہ ہمارا نرسری کا زمانہ تھا، پھر پرائمری ، ہائ اور پھر کالج ۔ ۔ غرض ہر جگہ انگریزی ۔ ۔ مگر اماں کی صلواتوں، جوتوں اور سروتوں کی مسلسل مجاہدانہ کاروائیوں نے اس معصوم کو اپنی زبان سے قریب رکھا۔ ۔ ان مجاہدانہ کاروائیوں کا اتنا خوف ہے کہ آج بھی ہم اگر اماں کو کوئ دوائ بتاتے ہیں تو ٹیبلیٹ کو گولی اور سیرپ کو شربت ہی کہتے ہیں۔ ۔ تاکہ اماں کو یہ یقین رہے کہ ہم میڈیکل کالج سے نہیں بلکہ مدرسۃالحکمت سے فارغ التحصیل ہیں۔ ۔
بہرحال یہ ہمارا نرسری کا زمانہ تھا، پھر پرائمری ، ہائ اور پھر کالج ۔ ۔ غرض ہر جگہ انگریزی ۔ ۔ مگر اماں کی صلواتوں، جوتوں اور سروتوں کی مسلسل مجاہدانہ کاروائیوں نے اس معصوم کو اپنی زبان سے قریب رکھا۔ ۔ ان مجاہدانہ کاروائیوں کا اتنا خوف ہے کہ آج بھی ہم اگر اماں کو کوئ دوائ بتاتے ہیں تو ٹیبلیٹ کو گولی اور سیرپ کو شربت ہی کہتے ہیں۔ ۔ تاکہ اماں کو یہ یقین رہے کہ ہم میڈیکل کالج سے نہیں بلکہ مدرسۃالحکمت سے فارغ التحصیل ہیں۔ ۔