anwarjamal
محفلین
دوستو میرا ماننا ھے کہ ہر کام صرف پہلی بار مشکل ہوتا ھے دوسری بار اس کی تمام تر تفصیلات آپ کے سامنے ہوتی ہیں ،،شاید خدا بھی ہمیں اسی لیئے پریشانیوں اور مصیبتوں سے گزارتا ھے کہ ھم آزمائش کی بھٹی میں تپ کر کندن ہو جائيں اور اپنے آپ پر فخر کرنے کے قابل ہو سکیں ،،
میرا ایک دوست جس کی والدہ بیمار تھیں مجھے اور عرفان کو دھوکے سے ہسپتال لے گیا اور بلڈ بینک کے سامنے کھڑے ہو کر ہاتھ جوڑ دئیے اس نے ،
یار ڈاکٹر نے تین بوتلیں مانگی ہیں ،، ایک بوتل خون تو میں دے چکا ہوں ،، ایک ایک تم دونوں دے دو پلیز ؛
یہ سنتے ہی میرا خون تو خشک ھو گيا اور ہر چيز لال رنگ کی نظر آنے لگی ،،،آج تک میں کبھی بلڈ بینک کے آگے سے بھی نہیں گزرا تھا ،،، اور پھر کسی شاعر کے جسم سے ایک بوتل خون مانگنا تو ویسے ہی نازیبا سی بات تھی ،،،
شاید میں انکار ہی کرنے والا تھا جب عرفان کی آواز آئی ،،
ہاں ہاں ؛ کیوں نہیں ، ایک بوتل کیا دو بوتلیں خون کی نکال لو یار ،،، آخر دوست ہی دوست کے کام آتا ھے
اف ؛ مروا دیا سالے ،، میں نے دل ہی دل میں اسے کوسا ،،اور چہرے پر بشاشت طاری کرنے کی ناکام کوشش کی ،،
جب ھم تینوں بلڈ بینک کے اندر جارھے تھے تو میری مثال اس بیل کی سی تھی جسے زبردستی بوچڑ خانے میں دھکیلا جا رہا ہو ،،،
جب ھم دونوں کو بیڈ پر لٹایا گیا اور ایک نوجوان لڑکے نے دو موٹی سرنجیں اٹھائيں تو میری روح قفس عنصری سے پرواز کرنے کیلیئے بری طرح پھڑ پھڑائی ،،،
کیونکہ میں نے کبھی کسی ڈاکٹر سے ٹیکہ بھی نہیں لگوایا تھا ،، جب میں بیمار ہوتا اور کسی ڈاکٹر کے پاس جاتا تو صاف منع کردیتا کہ ڈاکٹر صاحب میں ٹیکہ نہیں لگواؤں گا ،،، صرف ٹیبلٹ دیجیئے گا ،،،
یار عرفان مجھے ڈر لگ رہا ھے ،، میں نے سرگوشی کی ،،
کچھ نہیں ھوگا یار ،، عرفان نے حوصلہ بڑھایا اور کہا ،میں پہلے بھی خون دے چکا ہوں ، دس منٹ میں ھم فارغ ہو جائيں گے ،،،،
اس وقت میری عمر لگ بھگ 25 سال ھوگی ،،
تقریبا چھ سال بعد میں نے ایک دن دوبارہ ہسپتال کا منہ دیکھا ،، میری بیوی آپریشن تھیٹر میں تھی رات کے دو بجے ڈاکٹر نے کہا کہ فورا خون کی بوتل کا انتظام کرو ،،
رات کے دو بجے میں کسے فون کر کے بلاتا ، ایک دو دوستوں کو فون بھی کیا لیکن وہ سو رھے تھے فون رسیو نہ کر پائے ،،،
میں بے خیالی میں چلتا ھوا جانے کب بلڈ بینک کے سامنے پہنچ گيا ،،،تب مجھے یاد آیا کہ ایک بوتل خون دینا کوئی بڑی بات نہیں صرف دس منٹ کا ہی تو کام ھے ،،
تحریر ؛ انور جمال انور
میرا ایک دوست جس کی والدہ بیمار تھیں مجھے اور عرفان کو دھوکے سے ہسپتال لے گیا اور بلڈ بینک کے سامنے کھڑے ہو کر ہاتھ جوڑ دئیے اس نے ،
یار ڈاکٹر نے تین بوتلیں مانگی ہیں ،، ایک بوتل خون تو میں دے چکا ہوں ،، ایک ایک تم دونوں دے دو پلیز ؛
یہ سنتے ہی میرا خون تو خشک ھو گيا اور ہر چيز لال رنگ کی نظر آنے لگی ،،،آج تک میں کبھی بلڈ بینک کے آگے سے بھی نہیں گزرا تھا ،،، اور پھر کسی شاعر کے جسم سے ایک بوتل خون مانگنا تو ویسے ہی نازیبا سی بات تھی ،،،
شاید میں انکار ہی کرنے والا تھا جب عرفان کی آواز آئی ،،
ہاں ہاں ؛ کیوں نہیں ، ایک بوتل کیا دو بوتلیں خون کی نکال لو یار ،،، آخر دوست ہی دوست کے کام آتا ھے
اف ؛ مروا دیا سالے ،، میں نے دل ہی دل میں اسے کوسا ،،اور چہرے پر بشاشت طاری کرنے کی ناکام کوشش کی ،،
جب ھم تینوں بلڈ بینک کے اندر جارھے تھے تو میری مثال اس بیل کی سی تھی جسے زبردستی بوچڑ خانے میں دھکیلا جا رہا ہو ،،،
جب ھم دونوں کو بیڈ پر لٹایا گیا اور ایک نوجوان لڑکے نے دو موٹی سرنجیں اٹھائيں تو میری روح قفس عنصری سے پرواز کرنے کیلیئے بری طرح پھڑ پھڑائی ،،،
کیونکہ میں نے کبھی کسی ڈاکٹر سے ٹیکہ بھی نہیں لگوایا تھا ،، جب میں بیمار ہوتا اور کسی ڈاکٹر کے پاس جاتا تو صاف منع کردیتا کہ ڈاکٹر صاحب میں ٹیکہ نہیں لگواؤں گا ،،، صرف ٹیبلٹ دیجیئے گا ،،،
یار عرفان مجھے ڈر لگ رہا ھے ،، میں نے سرگوشی کی ،،
کچھ نہیں ھوگا یار ،، عرفان نے حوصلہ بڑھایا اور کہا ،میں پہلے بھی خون دے چکا ہوں ، دس منٹ میں ھم فارغ ہو جائيں گے ،،،،
اس وقت میری عمر لگ بھگ 25 سال ھوگی ،،
تقریبا چھ سال بعد میں نے ایک دن دوبارہ ہسپتال کا منہ دیکھا ،، میری بیوی آپریشن تھیٹر میں تھی رات کے دو بجے ڈاکٹر نے کہا کہ فورا خون کی بوتل کا انتظام کرو ،،
رات کے دو بجے میں کسے فون کر کے بلاتا ، ایک دو دوستوں کو فون بھی کیا لیکن وہ سو رھے تھے فون رسیو نہ کر پائے ،،،
میں بے خیالی میں چلتا ھوا جانے کب بلڈ بینک کے سامنے پہنچ گيا ،،،تب مجھے یاد آیا کہ ایک بوتل خون دینا کوئی بڑی بات نہیں صرف دس منٹ کا ہی تو کام ھے ،،
تحریر ؛ انور جمال انور