محمد شکیل خورشید
محفلین
اصلاحِ سخن میں ایک غزل پر محترم محمد خلیل الرحمٰن صاحب کی حوصلہ افزائی کے باعث یہاں اپنا تازہ کلام پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ امید ہے اساتذہ کی رہنمائی یہاں بھی حاصل رہے گی شکریہ
پہنچی نہیں ہے میری صدا اُس جناب میں
یوں بے رخی نہ تھی کبھی اُن کے جواب میں
ہر ذی نفس اُٹھائے ہے اپنی صلیبِ درد
کیا جانے عمر کس کی کٹی کس عذاب میں
اب تک نبھا رہا ہوں اسے خونِ دل سے میں
اک ہاں جو کہہ چکا ہوں مروت کے باب میں
وہ جس کے پیچھے خاک سبھی در کی چھان لی
صورت وہی دکھائی گئی ہر سراب میں
کیا جانے کیا نصیب ہے تعبیر میں شکیل
دہرا رہا ہوں ایک ہی منظر میں خواب میں
پہنچی نہیں ہے میری صدا اُس جناب میں
یوں بے رخی نہ تھی کبھی اُن کے جواب میں
ہر ذی نفس اُٹھائے ہے اپنی صلیبِ درد
کیا جانے عمر کس کی کٹی کس عذاب میں
اب تک نبھا رہا ہوں اسے خونِ دل سے میں
اک ہاں جو کہہ چکا ہوں مروت کے باب میں
وہ جس کے پیچھے خاک سبھی در کی چھان لی
صورت وہی دکھائی گئی ہر سراب میں
کیا جانے کیا نصیب ہے تعبیر میں شکیل
دہرا رہا ہوں ایک ہی منظر میں خواب میں