پہلی صبح دسمبر کی

السلام علیکم
دسمبر آ وارد ہوا ہے۔ اور اس آمد کا احساس مجھے صبح جاگتے ہی ہوا۔ کیونکہ جاگتے ہی جب اپنے موبائل کی سکرین پر نظر پڑی تو معمول سے زیادہ ایس ایم ایس دیکھنے کو ملے اور ان میں سے95 فیصد دسمبر کی آمد کی خبر دے رہے تھے۔
سوچا ان میں سے کچھ محفلین کی نذر کر دوں

تیری یاد، تنہائی، خاموشی اور بہتے آنسو
پہلی صبح دسمبر کی کیا تحفے لائی ہے

اٹھ جاؤ غفلتوں میں سوئے ہوئے لوگو
دیکھو دسمبر کی پہلی صبح کتنی اداس ہے

ریزہ ریزہ کیا تھا، گزشتہ دسمبر نے میرا وجود
اب کہ پھر آیا ہے نبھانے ماضی کی روایت

ہلکی ہلکی سی سرد ہوا، ذرہ ذرہ سا درد دل
انداز اچھا ہے ، دسمبر تیرے آنے کا

خاموش آسمان، مایوس پرندے، ویران، سرد عالم
اور یادوں کے سلسلے،اف یہ دسمبر کبھی تنہا نہیں آتا

یہ تمام میسجزاس بات کی غماز ہیں کہ دسمبر کو اداسیوں کوخاص نسبت دی جاتی ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے۔
محفلین اپنی رائے سے بھی نوازیں اور دسمبر کے حوالےسے اگر کوئی شعر ذہین میں ہو تو وہ بھی شیئر کریں۔
 

شمشاد

لائبریرین
اسے کہنا دسمبر آ گیا ہے
اسے کہنا دسمبر آ گیا ہے
دسمبر کے گزرتے ہی برس اک اور ماضی کی گپھا میں
ڈوب جائے گا
اسے کہنا دسمبر لوٹ آئے گا
مگر جو خون سو جائے گا جسموں میں نہ جاگے گا
اسے کہنا، ہوائیں سرد ہیں اور زندگی کہرے کی
دیواروں میں لرزاں ہے
اسے کہنا، شگوفے ٹہنیوں میں سو رہے ہیں
اور ان پر برف کی چادر بچھی ہے
اسے کہنا اگر سورج نہ نکلے گا
تو برف کیسے پگھلے گی
اسے کہنا کہ لوٹ آئے
 
اسے کہنا دسمبر آ گیا ہے
اسے کہنا دسمبر آ گیا ہے
دسمبر کے گزرتے ہی برس اک اور ماضی کی گپھا میں
ڈوب جائے گا
اسے کہنا دسمبر لوٹ آئے گا
مگر جو خون سو جائے گا جسموں میں نہ جاگے گا
اسے کہنا، ہوائیں سرد ہیں اور زندگی کہرے کی
دیواروں میں لرزاں ہے
اسے کہنا، شگوفے ٹہنیوں میں سو رہے ہیں
اور ان پر برف کی چادر بچھی ہے
اسے کہنا اگر سورج نہ نکلے گا
تو برف کیسے پگھلے گی
اسے کہنا کہ لوٹ آئے

بہت خوب
 

شمشاد

لائبریرین
بچپن کا دسمبر

ہاں مجھے یاد ہے
بچپن کا وہ دسمبر
ٹھٹھرتی ڈھلتی شاموں میں
آنگن کی دیوار سے سرکتی دھوپ
جلتے ہوئے کوئلے کی مہک
اور میرے پھٹے ہوئے گالوں پر
لکیریں بناتے
وہ جمے ہوئے آنسو.......
آسمان پر جمتی، وہ بادلوں کی دھند دیکھ کر
امی کا دروازے میں کھڑے ہو کر پکارنا
اور ہم سب کا مٹی بھرے کنچے سنبھال کر
اپنے اپنے گھروں کو بھاگنا.......
رات بھر چھپ چھپ کر
آسماں کو دیکھ
برف گرنے کی دعائیں کرنا
اور پھر صبح پو پھٹتے ہی
صحن میں گرتی برف کے ستارے چُننا.......
اور برف گراتے آسماں کو دیکھ دیکھ
خُود بھی برف کے گالوں کیساتھ
اُڑتے ہوئے محسوس کرنا
پھر تم آ گئیں.......
اور بچپن کا دسمبر بیت گیا
تب پہروں اس سرکتی ٹھنڈی دھوپ تلے
اور ان ٹھٹھرتی ڈھلتی شاموں میں
میں تمہاری ایک جھلک دیکھنے کے لیے
آسمان سے گرتی برف کی چاندی
اپنے وجود پر سجاتا رہا اور
زمین پر بچھی اس سفید چادر پر
میرے قدموں کا ہر نشان
تمہارے گھر کی دہلیز تک ہی جاتا رہا
پھر وہ دسمبر بھی بیت گیا
اور دیکھو.......
میں اب بھی گلی کی اسی نکڑ پر کھڑا ہوں
ٹھٹھرتی ڈھلتی شام بھی ہے
پر سنہری دھوپ نہیں سرکتی
وقت جیسے تھم سا گیا ہے
برف کے ستارے میرے بالوں میں
چاندی بکھیر تو رہے ہیں
پر انہیں بھگو نہیں پاتے
یہ کیسی برفیلی شام ہے
جس کی سردی میرے آنسوں جما نہیں پا رہی
جلتے کوئلے کا دھواں
آنکھ تو جلاتا ہے
پر اس میں وہ مہک نہیں
اور دیکھو میرے گھر کا دروازہ.......
پٹ کھولے کھڑا تو ہے لیکن
امی کی ڈانٹ نا جانے کہاں کھو گئی ہے؟
تمہارے گھر کی طرف جاتے سبھی راستے
اس قدر سنسان کیوں پڑے ہیں؟
اس برفیلی شام میں
اور
میرے بچپن کے دسمبر میں
کتنا فرق ہے

(ہاشم ندیم)
 

ابو کاشان

محفلین
اسے کہنا دسمبر آ گیا ہے
اسے کہنا دسمبر آ گیا ہے
دسمبر کے گزرتے ہی برس اک اور ماضی کی گپھا میں
ڈوب جائے گا
اسے کہنا دسمبر لوٹ آئے گا
مگر جو خون سو جائے گا جسموں میں نہ جاگے گا
اسے کہنا، ہوائیں سرد ہیں اور زندگی کہرے کی
دیواروں میں لرزاں ہے
اسے کہنا، شگوفے ٹہنیوں میں سو رہے ہیں
اور ان پر برف کی چادر بچھی ہے
اسے کہنا اگر سورج نہ نکلے گا
تو برف کیسے پگھلے گی
اسے کہنا کہ لوٹ آئے
اب یہ ممکن نہیں۔
ہاں، اب یہ ممکن نہیں۔
 

صائمہ شاہ

محفلین
جاتے ہوئے سال کی ساعتوں میں
یہ بجھتا ہوا دل
دھڑکتا تو ہے مسکراتا نہیں
دسمبر مجھے راس آتا نہیں

محسن نقوی
 
Top