محمد نعیم وڑائچ
محفلین
پہلے آ نکھوں میں خواب اترے ہیں
پھر تو جیسےعذاب اترے ہیں
جیسے ساون کے تیز رو قطرے
ایسے وہ بے حجاب اترے ہیں
میں نے مانگی دعا تھی منزل کی
راستے بے حساب اترے ہیں
درد و رنج و بلا کے موسم میں
رنگ جام و شراب اترے ہیں
اب نہ آنکھوں پہ ہے یقیں میرا
ایسے ایسے سراب اترے ہیں
زندگی تیرے سب سوالوں پر
بس فنا کے جواب اترے ہیں
کھیل جاری تھا خود فریبی کا
اور ہم کامیاب اترے ہیں
کچھ نہیں سوجھتا زمانے کو
جب سے ان پر شباب اترے ہیں
فصل گل سے چمن گریزاں ہے
کیسے موسم خراب اترے ہیں
پھر تو جیسےعذاب اترے ہیں
جیسے ساون کے تیز رو قطرے
ایسے وہ بے حجاب اترے ہیں
میں نے مانگی دعا تھی منزل کی
راستے بے حساب اترے ہیں
درد و رنج و بلا کے موسم میں
رنگ جام و شراب اترے ہیں
اب نہ آنکھوں پہ ہے یقیں میرا
ایسے ایسے سراب اترے ہیں
زندگی تیرے سب سوالوں پر
بس فنا کے جواب اترے ہیں
کھیل جاری تھا خود فریبی کا
اور ہم کامیاب اترے ہیں
کچھ نہیں سوجھتا زمانے کو
جب سے ان پر شباب اترے ہیں
فصل گل سے چمن گریزاں ہے
کیسے موسم خراب اترے ہیں